بھارت میں خواتین پر مشتمل پولیس
25 جولائی 2017بھارت ميں پوليس والے عموماً مرد ہی ہوتے ہيں ليکن ملک کے شمال مغربی حصے ميں صرف عورتوں پر مشتمل نئے پوليس يونٹس اب اس روايت کو تبديل کر رہے ہيں۔ جے پور شہر ميں ايسا ايک اسکواڈ تعينات کيا گيا ہے، جس کا کام جنسی جرائم اور جنسی زيادتی کے کيسوں پر متاثرہ افراد کی خاموشی جيسے مسائل سے نمٹنا ہے۔ اس اسکواڈ کی ارکان پوليس اہلکار عورتيں بس اسٹيشنوں، کالجوں، پارکس اور ديگر تفريحی مقامات حتی کہ تمام ايسے مقامات پر گشت کرتی ہيں، جہاں عورتوں کو ممکنہ طور پر ہراساں کيا جا سکتا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ بھارت ايک ايسا ملک ہے جہاں عورتوں کو سڑکوں وغيرہ اور تفريحی مقامات پر اکثر اوقات ہراساں کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازيں ان کے خلاف جملے کسنا بھی عام سی بات ہے۔ پچھلے چند برسوں ميں خواتین کے خلاف جنسی زيادتی اور قتل جيسے سنگين جرائم ميں بھی اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔
بھارت ميں سالانہ بنيادوں پر جنسی زيادتی کے چاليس ہزار کيس ريکارڈ کيے جاتے ہيں جبکہ يہ بھی مانا جاتا ہے کہ حقيقی تعداد اس سے کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔ جے پور ميں تعينات يونٹ کی سربراہ کمال شيخاوت کہتی ہيں، ’’ہم بس يہ پيغام دينا چاہتے ہيں کہ عورتوں کے خلاف جرائم کو اب بالکل برداشت نہيں کيا جائے گا۔‘‘
بھارتی پوليس فورس ميں بھاری اکثريت مردوں کی ہے۔ عورتيں مجموعی قوت کا صرف سات فيصد ہيں۔ شيخاوت کا ماننا ہے کہ سڑکوں پر خواتين پوليس اہلکاروں کی موجودگی سے عورتوں ميں حوصلہ بڑھے گا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے جرائم کو رپورٹ کرنے کے لیے آگے بڑھیں گی اور خود بھی اپنا دفاع کر سکيں۔
کمال شيخاوت کا يہ بھی کہنا ہے کہ عورتيں مقابلتاً سننے کی صلاحيت زيادہ رکھتی ہيں اور متاثرين ان سے بات کرنے ميں ہچکچاہٹ محسوس نہيں کرتے۔
بھارتی شہر جے پور ميں تعينات خواتين پوليس افسران کا يہ يونٹ در اصل ملک کا دوسرا ايسا يونٹ ہے۔ ايسا اوّلين يونٹ گزشتہ برس اکتوبر ميں قائم کيا گيا تھا اور وہ اودے پور ميں تعينات ہے۔