بھارت: خواتین کے سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس مکمل طور پر ختم
22 جولائی 2018
بھارت نے خواتین کے سینیٹری پیڈز پر عائد کردہ ایک متنازعہ ٹیکس مکمل طور ختم کر دیا ہے۔ یہ اقدام عورتوں کی تعلیم اور خود مختاری کے لیے چلائی جانے والی ایک حالیہ مہم کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے۔
اشتہار
ہفتہ اکیس جولائی کو کیا گیا یہ سرکاری اعلان دراصل آئندہ برس عام انتخابات سے قبل صارفین کے لیے عام استعمال کی اشیاء میں نوّے فیصد تک جی ایس ٹی ٹیکس میں کٹوتی کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔
بھارت کے قائم مقام وزیر خزانہ پیوش گویال نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ میرا خیال ہے خواتین اس بات سے بہت خوش ہوں گی کہ سینیٹری پیڈز پر سے ٹیکس سو فیصد ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
بولی ووڈ اسٹارز ، خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور بعض سیاستدانوں نے اس حوالے سے ایک مہم چلا رکھی تھی جس میں انہوں نے خواتین کے ایام مخصوصہ کے دوران استعمال کیے جانے والے سینیٹری پیڈز پر عائد بارہ فیصد ٹیکس کی مخالفت کی تھی۔ ان افراد کا موقف تھا کہ ٹیکس عائد کرنے سے حفظان صحت کے لیے انتہائی ضروری یہ پروڈکٹ خواتین کی استطاعت سے باہر ہو جائے گی۔
رواں برس کے آغاز میں ہوئے ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک بھر میں سولہ سے چوبیس سال کی درمیان کی عمر کی ساٹھ فیصد خواتین کو سینیٹری پیڈز تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہی شرح بھارت کی چند وسطی اور مشرقی غریب ریاستوں میں اسّی فیصد تک پائی گئی ہے۔
گزشتہ برسوں میں بھی بھارت میں خواتین کے لیے صحت و صفائی کی صورت حال خراب ہونے کے حوالے سے ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں جن کے مطابق بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بچیوں کے لیے اسکولوں میں ٹوائلٹ اور سینیٹری پیڈز تک رسائی نہ ہونے کے سبب ان علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔
خواتین کے استعمال میں آنے والے سینیٹری پیڈز کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیے جانے کی خبر سن کر مشہور بالی ووڈ فلم اسٹار اکشے کمار نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں لکھا،’’ آج کا دن اُن دنوں میں سے ہے جب کوئی خبر آپ کا دل خوشی سے بھر دیتی ہے۔‘‘
اکشے کمار نے اسی سماجی موضوع پر ایک فلم ’پیڈ مین‘ میں کام کیا تھا جو اس سال کے آغاز میں سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی۔
ص ح / ع ح / اے ایف پی
غربت کے خلاف جنگ ٹائلٹ سے
دنیا کی ایک تہائی آبادی کو صاف اور محفوظ بیت الخلاء میسر نہیں ہیں۔ صاف ستھرے ٹائلٹس کی تعمیر نہ صرف صحت کے لیے بہتر ہے بلکہ بیت الخلاء کی بہتر سہولیات تربیت اور کام کاج کو بھی آسان بنا دیتی ہیں۔
تصویر: Patrick Baumann
صحت کے لیے سرمایہ کاری
اگر بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت مسیر نہ ہو تو پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں (ٹائیفائڈ اور اسہال وغیرہ) تیزی سے پھیلتی ہیں۔ یہی مسئلہ کینیا میں غریبوں کی بستی کِبیرا کو لاحق تھا۔ وہاں لوگ پاخانہ پلاسٹک کے شاپر میں کرتے تھے اور اسے پھینک دیا جاتا تھا۔ جب سے وہاں ایسے ٹائلٹس بنے ہیں، بیماریوں میں کمی ہوئی ہے۔
تصویر: DW
گندگی اٹھانے کا کام
بھارت کے کئی علاقوں میں ابھی تک ایسی کچی لیٹرینیں استعمال کی جاتی ہیں، جہاں پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ گزشتہ بیس برسوں سے بھارت میں اس کام کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنا ممنوع ہے لیکن یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ نئی دہلی میں رواں برس کے آغاز سے نام نہاد ’دستی صفائی‘ پر پابندی عائد ہے۔
تصویر: Lakshmi Narayan
بحران زدہ علاقوں میں بچاؤ
بحران یا آفت زدہ علاقوں میں لاجسٹکس کی مشکلات کی وجہ سے ٹائلٹس کا قیام ایک مشکل کام ہے۔ بے گھر افراد کو انتظار میں کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ صومالیہ کے ان مہاجرین کو صاف ٹائلٹس کی اضافی سہولیات کی ضرورت ہے لیکن بنیادی ڈھانچے کے مسائل اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پولیو جسیی بیماریوں کا پھیلاؤ
شام کی تمام بین الاقوامی سرحدوں پر مہاجر کیمپ قائم ہو چکے ہیں۔ ہزار ہا مہاجرین کردستان کے نیم خود مختاد علاقے میں قائم اس عارضی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایسے کیمپ ضرورت سے زیادہ بھر چکے ہیں۔ گندے پانی کے ذریعے پولیو اور دیگر متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
تصویر: DW/M. Isso
پائیدار حل
بولیویا کے دارالحکومت لاپاز کے مضافات میں واقع شہر ایل آلٹو میں ایسے بیت الخلاء بنائے گئے ہیں، جو فضلے کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور اسے دوبارہ کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس علاقے کے کسانوں کو یہ کھاد مفت فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Sustainable Sanitation/Andreas Kanzler
یورپ میں ٹائلٹس کی کمی
تقریباﹰ بیس ملین یورپی باشندوں کو صفائی ستھرائی کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔ مشرقی یورپ کے دیہات میں ابھی بھی لکڑی یا پھر لوہے کی چادروں سے بنی لیٹرینیں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان علاقوں میں پینے کا پانی بھی آلودہ ہے اور اسے کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/CTK
مخصوص امداد
غربت کے خلاف جنگ کا سستا ترین ذریعہ ایک سادہ قسم کا ٹائلٹ ہے۔ ایک امدادی تنظیم نے ایتھوپیا کی 55 سالہ ٹیرام آیاگو کے گھر میں ایک بیت الخلاء تعمیر کیا ہے۔ پہلے اس کے بچے اکثر بیمار رہتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے اور ادویات پر خرچ ہونے والی رقم سے اسکول کے اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Richard Hanson
خوبصورت منظر والا بیت الخلاء
دنیا کے دور دراز علاقوں میں ٹائلٹس کے لیے نہ تو پانی ہے، نہ ہی بجلی یا نہ ہی کوئی سیوریج سسٹم۔ الاسکا کے ماؤنٹ مَیک کَینلی پر واقع اس بیت الخلاء سے شمالی امریکا کے سب سے اونچے پہاڑ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے بہترین ٹائلٹس کے بارے میں کتاب لکھنے والے لُوک بارکلے نے اسے A loo with a view کا نام دیا ہے۔