1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

بھارت میں دو ہزار روپے کے نوٹ پر پابندی سے پھر افراتفری

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
22 مئی 2023

بھارت نے اپنے دو ہزار کے نئے نوٹ کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے عوام میں ایک بار پھر بے چینی کا ماحول ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عوام کو اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ واپسی کے لیے کافی وقت دیا گیا ہے۔

Indien Ratten zerstören Banknoten im Automaten
تصویر: Getty Images/AFP

مودی کی حکومت نے اپنے ایک اچانک فیصلے میں 19 مئی کے روز 2000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام ستمبر کے اواخر تک اپنے دو ہزار روپے کے تمام نوٹ بینکوں میں جمع کرا کے اس کی جگہ دوسرے نوٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

بھارت: ’نوٹ بندی‘ کی پہلی سالگرہ پر حکمران اور اپوزیشن میں گھمسان

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے یہ بھی اعلان کیا کہ ستمبر تک یہ نوٹ بازار میں قانونی طور پر چلتے رہیں گے اور اسے سامان خریدنے یا خدمات حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم حکومت کے اعلان کے بعد ہی دکان داروں نے یہ نوٹ لینا بند کر دیا جبکہ بہت سے لوگ نوٹ تبدیل کرنے کے لیے بینکوں کے چکر کاٹنے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔

کرنسی نوٹوں پر پابندی سے اقتصادی نمو متاثر ہوئی، بھارت

حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا کہ اس فیصلے سے عوام ایک بار پھر مشکلات سے گزر رہے ہیں۔

ایمیزون سے وال مارٹ تک: بھارت میں امریکی سرمایہ کاری، مودی کی چاندی

 واضح رہے کہ اس تازہ فیصلے نے سن 2016 میں نریندر مودی کی حکومت کے اس حیران کن فیصلے کی یاد دلا دی ہے، جب ملکی معیشت کی تقریبا 86 فیصد کرنسی پر راتوں رات پابندی لگا دی گئی تھی۔

روسی بھارتی تجارت اور روپے کا مسئلہ

 آر بی آئی کی وضاحت

اس پس منظر میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانتا داس نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس کی اور عوام سے اپیل کی کہ ان کے پاس نوٹ واپس کرنے کا کافی وقت ہے اور انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''بینکوں سے اس کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کے بھی احکامات دیے گئے ہیں، تاکہ لوگوں کو اتنی تیز دھوپ میں بینک کے باہر میدان میں نہ کھڑا ہونا پڑے... میں عوام سے یہی اپیل کروں گا کہ بینکوں کی طرف دوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چار ماہ کا وقت ہے اور اس دوران جب بھی مناسب ہو، اپنے نوٹ تبدیل کر لیں۔ نوٹ تبدیلی 23 مئی سے شروع ہو رہی ہے، آرام سے کریں۔''

 سن 2016 کی نوٹ بندی کے دوران ملک بھر میں لوگوں کو بینک کے باہر قطاروں میں کھڑا دیکھا گیا اور اس کے باوجود بہت سے لوگ اپنے نوٹ نہیں تبدیل کروا پائے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Das

حکومت کی ان یقین دہانیوں کے باوجود لوگ ماضی کے مناظر سے کافی پریشان ہیں جب نوٹ کی تبدیلی کے عمل کے دوران متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

 سن 2016 کی نوٹ بندی کے دوران ملک بھر میں لوگوں کو بینک کے باہر قطاروں میں کھڑا دیکھا گیا اور اس کے باوجود بہت سے لوگ اپنے نوٹ نہیں تبدیل کروا پائے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹوں کو اس طرح واپس لینے سے ملک کی معیشت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور اس اقدام سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جائے گی۔ اس سے بے روزگاری کی شرح میں جہاں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے وہیں سرمایہ کاری بھی متاثر ہو گی۔

اپوزیشن کی فیصلے پر شدید تنقید

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک ایسا ''خود ساختہ عالمی گرو'' قرار دیا جو ''کام پہلے کرتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔''

 کانگریس نے کہا کہ سن 2016 کی نوٹ بندی اب اپنا دائرہ مکمل کر رہی ہے اور نوٹ بندی کے ''احمقانہ فیصلے کی غلطیوں '' کو چھپانے کے لیے اب اس نوٹ پر بھی پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''پہلے کہا گیا تھا کہ 2000 کا نوٹ لانے سے کرپشن رک جائے گا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ 2000 کے نوٹ پر پابندی لگانے سے کرپشن ختم ہو جائے گا۔ ہم اسی لیے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ناخواندہ وزیر اعظم کو کوئی کچھ بھی کہتا رہے، وہ ان کی باتوں کو نہیں سمجھتا اور نقصان تو عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔''

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ مودی حکومت کو اپنی غلطی کا بہت دیر سے احساس ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمرانی کے لیے

 عقل اور ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہے، من مانی کی نہیں۔

انہوں نے ٹویٹر پر لکھا، ''کچھ لوگ اپنی غلطیوں کو بہت دیر میں سمجھ پاتے ہیں...دو ہزار کے نوٹ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن اس کا خمیازہ اس ملک کی عوام اور معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔''

حکومت نے دو ہزار روپے کا نوٹ واپس کیوں لیا؟

حکومت کا کہنا ہے کہ سن 2016 میں نوٹ بندی کے بعد کرنسی کی کمی تھی، اس لیے اس وقت اسے بھرنے کے لیے دو ہزار روپے کا نوٹ متعارف کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت میں جس دو ہزار روپے کے نوٹ کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے، اسے مودی کی حکومت نے ہی پہلی بار پیش کیا تھا۔  

 مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ گردش میں زیادہ مالیت کے نوٹوں کو وہ پہلے سے کم کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس نے چار برس قبل ہی 2000 روپے کے نوٹوں کی چھپائی بند کر دی تھی۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے ان نوٹوں کے واپس لینے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ''یہ بڑا نوٹ عام طور پر لین دین کے لیے زیادہ استعمال بھی نہیں ہوتا ہے۔''

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں