ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت میں ذہنی یا دماغی مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے صرف پانچ فیصد مریضوں کا ہی علاج ہوپاتا ہے۔
اشتہار
موقر جریدے ’انڈین جرنل آف سائکیٹری‘میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ ڈیپریشن اور دیگر ذہنی امراض کے شکار ہر بیس افراد میں سے صرف ایک کا ہی علاج ہو پاتا ہے۔
یہ سروے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دہلی اور آرمڈ فورسز میڈیکل کالج پونے جیسے بھارت کے متعدد مشہور اسپتالوں نے کرائے۔ اس سروے میں قریب پچیس ہزار افراد شامل تھے۔ اس ریسرچ ٹیم میں شامل ایمس میں شعبہ امراض نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر راجیش ساگر کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ذہنی بیماری اور اس کے علاج کے درمیان کافی خلیج ہے، تاہم یہ خلیج ہماری توقع سے بہت زیادہ، یعنی تقریباً 95 فیصد ہے۔ ہر سو افراد میں سے صرف پانچ کا ہی علاج ہوپاتا ہے۔‘‘
دریں اثنا ایک دیگر رپورٹ ’گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی‘ کے مطابق بھارت میں 58 ملین سے زیادہ یا 4.5 فیصدافراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ سن 2015 میں ڈیپریشن بھارت میں موت کے منہ میں جلد چلے جانے کی دسویں سب سے بڑی وجہ رہی جب کہ سن 2005 میں یہ بارہویں نمبر پر تھی۔ ڈیپریشن کا مرض بھارتی مردوں (3.6 فیصد) کے مقابلے عورتوں(5.1 فیصد) میں زیادہ عام ہے۔ یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ پندرہ تا انیس برس کی عمر گروپ کے افراد میں ڈیپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین مدد یا علاج کے معاملے میں بھی مردوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیپریشن کا شکار افراد اپنی پریشانی کا ذکر کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں اور ان کے ارد گرد رہنے والے افراد کے لیے بھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ساگر کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں مردوں کی طرح خواتین کی صحت کو مساوی ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔
پر مُسرّت زندگی گزارنے کے 10 بہترین نسخے
خوشی زندگی کے لیے انجن کا کام دیتی ہے۔ خوش باش رہنے والے لوگ طویل زندگی پاتے ہیں۔ پرامیدی اور مثبت جذبات ہمیں دل کے امراض سے بھی بچاتے ہیں اور بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت کو بھی بڑھاتے ہیں۔
تصویر: Colourbox/yanlev
لوگوں سے روابط بڑھائیے!
تعلقات خوشی کے حصول میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گہرے اور مضبوط سماجی تعلقات کے حامل لوگ زیادہ آسودہ، صحت مند اور طویل زندگی پاتے ہیں۔ خاندان اور دوستوں کے ساتھ قریبی تعلقات، محبت اور تعاون اپنی زندگی کی قدر و قیمت سمجھنے اور اس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا اور نئے رابطے استوار کرنا پر مُسرت زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم ہے۔
تصویر: Colourbox/yanlev
دوسروں کے کام آئیے!
دوسروں کا خیال رکھنا ہماری خوش کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام آنے سے نہ صرف اُن لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ ہمیں مسرور کرتا ہے اور ہماری صحت پر مثبت اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے لیے خرچ کرنا بھی اہم ہے مگر یہ صرف رقم کی بات نہیں بلکہ ہم اپنا وقت، آئیڈیاز اور توانائی بھی دیگر لوگوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اچھا محسوس کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھا کرنا بھی چاہیے۔
تصویر: Colourbox/Kuzma
اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیے!
ہمارا جسم اور ہمارا دماغ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جسمانی سرگرمی سے ہمیں خوشی بھی حاصل ہوتی ہے اور یہ ہماری صحت کے لیے بھی بہترین ہے۔ یہ فوری طور پر ہمارے موڈ کو بھی بہتر کرتی ہے اور ڈپریشن کو بھی دور کرتی ہے۔ اس کے لیے پیدل چلنا اور عام ہلکی پھلکی ورزشیں وغیرہ بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تصویر: Colourbox
آگے بڑھنے کے لیے اہداف مقرر کیجیے!
مستقبل کے لیے اچھا احساس ہماری خوش کے لیے بھی اہم ہوتا ہے۔ ہمیں پُر عزم رہنے کے لیے اہداف کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اس قدر تک چیلنجنگ ہونے چاہییں کہ ہمیں جوش بھی دلا سکیں مگر اُسی حد تک قابل حصول بھی ہوں۔ پرجوش اور حقیقت پسندانہ اہداف ہماری زندگی کو ایک سَمت فراہم کرتے ہیں اور ان کے حصول پر تکمیل اور کامیابی کا احساس ہمیں مُسرت فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Colourbox
اپنے ارد گرد کی دنیا پر نظر رکھیے!
کبھی آپ نے محسوس کیا کہ زندگی کو مزید بہتر ہونا چاہیے۔ یہ بالکل ممکن ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آس پاس کی چیزوں پر توجہ مرکوز کریں۔ چیزوں کے بارے میں زیادہ جاننا اور ان کا احساس رکھنا ہماری زندگی کے تمام معاملات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ رویہ ہمیں ماضی میں الجھے رہنے یا مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے سے نجات دلاتا ہے۔
تصویر: Colourbox/PathomP
مثبت نقطہٴ نظر اپنائیے!
مثبت جذبات مثلاﹰ خوشی، شکر گزاری، قناعت، جوش اور فخر صرف وقتی طور پر ہی اچھے نہیں لگتے بلکہ ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان جذبات کا مسلسل احساس آپ کے اندر حیرت انگیز تعمیری اثرات پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ معاملات کو مثبت نقطہٴ نظر سے دیکھنا بھی آپ کو مسرور رکھتا ہے۔ آدھے خالی گلاس کی بجائے ہمیشہ آدھے بھرے گلاس کا احساس رکھیے۔
تصویر: Colourbox/Dmitry
نئی چیزیں سیکھنا جاری رکھیے!
سیکھنے کا عمل ہماری بہبود اور فلاح پر کئی طرح سے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس طرح ہم نئے خیالات سے متعارف ہوتے ہیں اور مصروفِ عمل اور پُر تجسس رہتے ہیں۔ اس سے ہمیں تکمیل کا احساس بھی ملتا ہے اور ہمارے اندر خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ نئی چیزوں کے لیے ہم دوستوں کی مدد بھی لے سکتے ہیں، مختلف کلب بھی جوائن کر سکتے ہیں، گانا بجانا سیکھ سکتے ہیں یا پھر کوئی نیا کھیل کھیلنا شروع کر سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox/Antonio Gravante
مشکلات سے نکلنا سیکھیے!
ہم تمام لوگ مشکلات، نقصانات، ناکامیوں اور صدمات سے گزرتے رہتے ہیں، لیکن ہم ان کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ نقصانات یا مشکلات کو روکنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا، مگر اس کے ردعمل میں ہم کیا کرتے ہیں، یہ ہمارے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ یہ آسان تو نہیں مگر مثبت انداز فکر کی بدولت ہم مشکل حالات سے نکل سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
اپنی شخصیت کے ساتھ مطمئن رہیے!
پرفیکٹ یا کامل کوئی بھی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہم اپنے پاس موجود چیزوں کو چھوڑ کر اُن چیزوں کا ماتم کرتے رہیں، جو ہم حاصل نہیں کر پائے تو یہ چیز ہماری خوشی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ہم جو کچھ ہیں، اس بات کو تسلیم کرنے اور کسی غلطی کی صورت میں اپنی ذات کو معاف کر دینے سے ہماری زندگی زیادہ پر مسرت اور مسرور ہو سکتی ہے۔ پھر یہ ہماری اپنی فلاح کے لیے بھی اہم ہے۔
تصویر: Colourbox
بڑی تصویر کا ایک حصہ بن جائیے!
وہ لوگ جو زندگی کا کوئی مقصد رکھتے ہیں، ان کی زندگی زیادہ آسودہ ہوتی ہے۔ وہ ذہنی دباؤ، پریشانی اور ڈپریشن کا بھی کم شکار رہتے ہیں۔ لیکن ہم زندگی کا مقصد کیسے حاصل کریں؟ یہ ہمارا مذہب بھی ہو سکتا ہے، اپنے بچوں کی بہتری بھی یا پھر کوئی نئی ملازمت بھی۔ مختلف لوگوں کے لیے اس کا جواب تو مختلف ہو سکتا ہے مگر پُرمسرت زندگی کے لیے اس کے اثرات یقیناﹰ مثبت ہوتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
10 تصاویر1 | 10
دوسری طرف بھارت میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ڈیپریشن کوئی بیماری ہے جس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے کے مطابق چار میں سے تین افراد کے شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود علاج میں زبردست خلیج ہے۔ 80 فیصد سے زیاد ہ افرادکو ایک سال سے زیاد ہ عرصے سے بیمار رہنے کے باوجود کسی طرح کا علاج نہیں مل سکا۔ حکومت نےسن 1996 میں ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد مرض کا ابتدا میں پتہ لگاکر علاج فراہم کرنا نیز عام ڈاکٹروں کو نفسیاتی امراض کے علاج کے لئے مختصر مدتی تربیت دینا اور عوامی بیداری پیدا کرنا تھا۔ تاہم یہ پروگرام ملک کے 707اضلاع میں سے اب تک صرف 200 اضلاع تک ہی پہنچ سکا ہے۔
گوکہ سرکاری ضابطہ کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی پر ایک ماہر نفسیات اور1.5کلینیکل سائیکالوجسٹ ہونے چاہییں تاہم یہ تعداد بالترتیب صرف 0.3 فیصداور 0.7 فیصد ہے۔ صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر نے بھارتی پارلیمان میں دسمبر 2015 میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ملک میں صرف 3800 ماہرین نفسیات اور 898 کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت میں مینٹل ہیلتھ کیئر پر صحت بجٹ کا صرف 0.06 فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جو بنگلہ دیش (0.44 فیصد) سے بھی کم ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی سن 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق بیشتر ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا چار فیصد سے ز یادہ دماغی صحت کی تحقیق، انفرااسٹرکچر، فریم ورک اور صلاحیت تیار کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔
بہر حال ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارتی پارلیمان نے گذشتہ ماہ مینٹل ہیلتھ کیئر بل کو منظوری دے دی۔ جو صدر پرنب مکھرجی کی توثیق کے بعد سات اپریل سے قانون کی شکل میں نافذ ہوچکا ہے۔گوکہ اس قانون پر ماہرین کی رائیں مختلف ہیں، تاہم اسے دماغی امراض کے متاثرین کی صحت کے حوالے سے ایک اچھا قدم قراردیا جارہا ہے۔ اس قانون میں دماغی امراض میں مبتلا افراد کے اقدامِ خودکشی کو اب جرم کے دائرہ سے خارج کردیا گیاہے۔
بھارت: جسم پر ٹیٹُوز کے ذریعے بغاوت کا اظہار
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں ’رام نامی سماج‘ ایک نچلی ذات کی ہندو برادری ہے۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو گزشتہ ایک سو برسوں سے اپنے جسموں پر ہندو دیوتا رام کے نام کے ٹیٹُوز بنواتے چلے آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بغاوت
ہندو کمیونٹی رام نامی سماج سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد نچلی ذات کے ہندو تصور کیے جاتے ہیں۔ اپنے جسم کے مختلف حصوں پر رام کے نام کے ٹیٹوز بنواتے ہوئے دراصل وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دیوتا صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
عاجزی
اپنے ان ٹیٹوز کے ذریعے وہ ہندو دیوتا رام کے لیے اپنی گہری عقیدت کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ہندو دیوتا رام کو ایک بادشاہ کے ساتھ ساتھ بہت عالم فاضل اور دیکھنے میں بہت خوبصورت تصور کیا جاتا ہے۔ رام کے ایک سو سے زیادہ مختلف نام ہیں، ’ہمیشہ رہنے والا‘ اور ’اعلیٰ ترین روح‘ سے لے کر ’ابدی زندگی عطا کرنے والا‘ تک۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
وقار
نچلی ذات سے تعلق رکھنے کی بناء پر رام نامیوں کو مندروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور وہ اُن پانیوں میں بھی نہیں جا سکتے، جہاں اعلیٰ ذات کے ہندو جاتے ہیں۔ اپنے وقار کو قائم رکھنے کے لیے رام نامیوں نے ٹیٹوز کا راستہ اختیار کیا۔ آج کے بھارت میں ذات پات سے وابستگی کی بناء پر کسی شخص کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک کرنا منع ہے۔ اس کے باوجود ذات پات کو بدستور بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
سنسکرت
رام کا نام سنسکرت یعنی پرانی ہندی زبان میں جِلد کے اندر کھود کر لکھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
خواتین
رام نامی سماج کی خواتین بھی اپنے بدن پر ٹیٹوز بنواتی ہیں۔ بھارت میں رام نامی سماج سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک لاکھ بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
طرزِ زندگی
رام نامی اپنی پوری زندگی کو رام کے نام وقف کر دیتے ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں رامائن کی ایک جلد موجود ہوتی ہے۔ رام نامیوں کے ملبوسات پر بھی اور اندر باہر سے اُن کے گھروں میں بھی ہر جگہ رام دیوتا کا نام لکھا نظر آتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
نئی نسل
رام نامیوں کی نوجوان نسل اپنے پورے جسم پر ٹیٹوز نہیں بنواتی اور اس ہندو کمیونٹی کے بزرگوں کے لیے اپنی نئی نسل کا یہ رجحان قابلِ فہم ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ بھلے ہی نئی نسل پورے جسم پر ٹیٹوز نہیں بنواتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس نے اپنا عقیدہ بھی چھوڑ دیا ہے۔