’راک اسٹار بابا‘ اور ’چمکیلے گرو‘ جیسے ناموں سے مشہور بھارت کے متنازعہ مذہبی گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو ایک صحافی کے قتل کے جرم میں جمعرات سترہ جنوری کو ایک خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی۔
اشتہار
صحافی رام چندر چھترپتی کے قتل کے معاملے میں مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) کی پنچکولہ خصوصی عدالت نے اکیاون سالہ گرمیت رام رحیم سنگھ کے علاوہ تین دیگر ملزمان کو بھی عمر قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں سنائیں۔ عدالت نے اسی ماہ کی گیارہ تاریخ کو ان چاروں کو اس صحافی کے قتل کا قصور وار قرار دیا تھا۔ گرو رام رحیم سنگھ اپنی دو عقیدت مند خواتین کے جنسی استحصال کے معاملے میں پہلے سے ہی جیل میں بند ہیں۔ اس معاملے میں عدالت نے 2017میں انہیں بیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سز اسنائے جانے سے قبل کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پنجاب اور ہریانہ کے مختلف شہروں میں حکم امتناعی نافذ کر دیے گئے تھے۔ تقریباً ایک ہزار سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں اورصورت حال پر نگاہ رکھنے کے لیے ڈرون کیمروں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں نے فلیگ مار چ بھی کیا۔
صحافی رام چندر چھترپتی کے قتل کا معاملہ سولہ برس پرانا ہے۔ 2002ء میں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ہی پہلی مرتبہ اپنے اخبار ’پورا سچ‘ میں گرمیت رام رحیم سنگھ کے آشرم ’ڈیرہ سچا سودا‘ میں مبینہ بدعنوانیوں کی خبریں شائع کی تھیں۔ قتل کے بعد ان کے رشتہ داروں نے کیس درج کرایا تھا اور سی بی آئی نے اس کی انکوائری کے بعد2007ء میں ایک چار ج شیٹ فائل کر دی تھی۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے گیارہ جنوری 2019ء کو اس کیس میں رام رحیم سنگھ کو قتل کی سازش کا قصور وار قرار دیا تھا اور سزا کی مدت کا فیصلہ آج 17جنوری تک کے لیے محفوظ کر لیا تھا۔
حکومت نے سابقہ تجربات سے سبق لیتے ہوئے عدالت سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سزا سنانے کی درخواست کی تھی۔ عدالت نے یہ درخواست مان بھی لی تھی۔ 2017ء میں جب گرو رام رحیم سنگھ کو سزا سنائی گئی تھی، اس وقت ان کے عقیدت مندوں نے بڑے پیمانے پر آتش زنی اور لوٹ مار کی تھی، جس میں کروڑوں کی املاک تباہ ہوگئی تھیں۔ اس کے علاوہ چالیس سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً تین سو زخمی بھی ہو گئے تھے۔ حالانکہ ابھی تک کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہیں ملی تاہم حکومت اور انتظامیہ کوئی بھی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ پچھلی مرتبہ حکومت کی سستی پر عدالت نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔
بھارت میں مذہبی گروؤں کا عوام پر خاصا اثر و رسوخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس وقت کئی گرو بدعنوانی اور جنسی استحصال کے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہندو سادھوؤں کی سب سے باوقار اور اعلیٰ ترین ملک گیر تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے چودہ ’بابوں‘ کی ایک فہرست جاری کی ہے اور حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بالخصوص پنجاب اور ہریانہ میں گرمیت رام رحیم سنگھ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں حتیٰ کہ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا تک میں موجود ان کے عقیدت مندوں کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہ عقیدت مند اس بابا کے ایک اشارے پر کسی بھی پارٹی کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کون ہیں؟
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ان کے مریدوں کی تعداد پچاس ملین ہے لیکن کئی حلقے انہیں ایک متنازعہ شخصیت قرار دیتے ہیں۔ آخر اس سادھو میں ایسا کیا ہے کہ انہیں بھارت کا ایک انتہائی اہم روحانی رہنما قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Str
’چمکیلا گرو‘
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو ’روک اسٹار بابا‘ اور ’چمکیلا گرو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں اور چمکتی ہوئی جیولری پہننا ان کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ بالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی جلوہ گر ہو چکے ہیں، جو انہوں نے اپنی ہی دولت سے بنائی ہیں۔ تاہم ان کا ذریعہ روزگار کیا ہے؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
’سماجی کارکن‘
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ خود کو ’سماجی کارکن’ اور ’انسان دوست‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک فرقہ بھی بنا رکھا ہے، جس میں بھارت کے مختلف مذاہب کے لوگ ان کے پیروکار ہیں۔ سن 2010 میں انہوں نے اجتماعی شادیوں کی ایک تقریب بھی منعقد کی تھی، جس میں ان کے ایک ہزار پیروکاروں نے سابق جسم فروش خواتین سے شادی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
مووی اسٹار اورریکارڈنگ آرٹسٹ
حالیہ عرصے میں گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کی متعدد فلموں نے دھوم مچائی، جن میں ’میسنجر فرام گاڈ‘ اور ’دی واریئر۔ لائن ہارٹ‘ بھی شامل ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے خود کو ایک انتہائی اعلیٰ مرتبے پر فائز ایک شخصیت کے طور پر دکھایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کئی میوزک البم بھی ریلیز کیے۔ سن 2014 میں ان کا ایک گانا ’لو چارجر‘ ایک بڑا ہٹ ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
سکھ کمیونٹی کے ساتھ تنازعہ
سن 2007 میں گرو گرمیت رام رحیم سنگھ ایک اشتہار میں گرو گوبند سنگھ کے روپ میں ظاہر ہوئے تو سکھ کمیونٹی میں غم وغصہ پھیل گیا۔ سکھوں کے انتہائی معتبر گرو گوبند سنگھ کی ’توہین‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے بھارت میں سکھ کمیونٹی نے مظاہرے بھی کیے اور آخر کار رام رحیم کے فرقے ڈیرا سچا سودا کی طرف معافی مانگی گئی تو یہ معاملا ٹھنڈا ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Pal Singh
مجرمانہ الزامات اور سزا
بھارت میں متعدد مذہبی گروپوں کے جذبات مجروح کرنے کے علاوہ گرو گرمیت رام رحیم سنگھ پر مجرمانہ الزامات بھی عائد کیے گئے۔ سن 2000 میں ایک صحافی کو قتل کرنے کی سازش کے ایک مقدمے میں وہ شامل تفتیش ہوئی اور سن 2015 میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے چار سو مریدوں کو نس بندی کرانے کی تقویت دی۔ تاہم سن 2002 میں ریپ کے ایک کیس میں مجرم قرار پانے میں چوبیس اگست کو انہیں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Prakash
مریدوں کا احتجاج
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو عدالت کی طرف سے مجرم قرار دیے جانے کے فوری بعد ہی ریاست ہریانہ اور پنجاب میں ان کے مریدوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس تشدد کے نتیجے میں کم ازکم اکتیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس دوران متعدد سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں ان کے آبائی قصبے پنچکولا میں ہوئیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
توڑ پھوڑ
بالخصوص پنچکولا میں رام رحیم کے مریدوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مشتعل مظاہرین نے متعدد گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ اس مظاہروں پر کنٹرول پانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Qadri
سکیورٹی ہائی الرٹ
ہریانہ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات کے پیش نظر حساس علاقوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق تاہم مشتعل مظاہرین شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
کچھ مقامات پر کرفیو بھی
مقامی انتظامیہ نے کئی علاقوں میں حفاظتی طور پر کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ چنڈی گڑھ اور ملحقہ علاقوں میں پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے پندرہ ہزار کے قریب اہلکار تعینات ہیں۔ ریاست ہریانہ کے شہر پنچکولا اور اس کے نواحی علاقوں کو خاردار باڑ لگا کر سیل کر دیا ہے ۔ اس علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اپنے گورو کے حق میں سڑکوں پر ڑیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
پنچکولا میدان جنگ بن گیا
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کا آبائی شہر پنچکولا میں میدان جنگ کی سی صورتحال ہے۔ حکام نے اس شہر میں تشدد کو کنٹرول کرنے کی خاطر خصوصی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
10 تصاویر1 | 10
یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کی حکومتیں بابا کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں اور ہر ممکن خوشگوار تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ گرمیت رام رحیم سنگھ ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنہیں انتہائی درجے والی ’زیڈ پلس‘ سکیورٹی حاصل تھی۔ اس طرح کی سکیورٹی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی صدر امیت شاہ کے علاوہ صرف چند ایک دیگر افراد ہی کو حاصل ہے۔
یوں تو گرمیت رام رحیم سنگھ نے سماجی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے کام کیے اور خود کو ایک سماجی مصلح کے طور پر بھی پیش کیا، تاہم وہ کئی تنازعات کا شکار بھی رہے۔2007ء میں وہ اس وقت ایک زبردست تنازعے کی زد میں آ گئے تھے جب انہوں نے ایک اشتہار میں خود کو سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے لباس میں پیش کیا تھا۔
گرمیت رام رحیم سنگھ خود کو روایتی ’بابوں‘ سے یکسر مختلف انداز میں پیش کرتے تھے۔ انہوں نے ماڈرن لباس پہنا، حتیٰ کہ فلموں میں اداکاری کی، رقص کیا، گانے گائے اور اسپورٹس بائیک تک بھی چلائی۔ ان کے عقیدت مند انہیں صرف فلموں میں ہی نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی ’بھگوان کا اوتار‘ سمجھتے تھے۔ گرمیت رام رحیم سنگھ ’ڈیرہ سچا سودا‘ کے تیسرے گرو ہیں۔ یہ ڈیرہ بلوچستان کے رہنے والے شاہ مستانہ مہاراج نے 1948ء میں ہریانہ میں قائم کیا تھا۔
سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے ’ڈیروں‘ نے پنجاب اور ہریانہ میں ابتدا میں سماجی ترقی اور ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جیسے جیسے ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی گئی، انہوں نے سیاسی اہمیت اختیار کرنا شروع کر دی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان ’ڈیروں‘ کے سربراہان کو نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
بھارت میں ذات پات پر تحقیق کرنے والے دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر پروین کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ڈیرے بھارت میں نئی مذہبی تحریک کا حصہ ہیں۔ ملک میں جن طبقات کو ان کے مذاہب سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی گئی اور جو ’بھید بھاؤ‘ کا شکار رہے، انہیں ان ڈیروں نے ہی گلے لگایا۔ ان ڈیروں میں آ کر ایسے افراد کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ڈیروں کے ماننے والوں میں زیادہ تعداد دلت ذات کے افراد اور انتہائی پسماندہ طبقات کے لوگوں کی ہے۔ ہریانہ میں دلتوں کی تعداد بیس فیصد اور پنجاب میں تینتیس فیصد ہے اور ڈیرہ کی بنیاد بھی انہی لوگوں کے بل پر قائم ہے۔‘‘
ان ڈیروں میں تمام مذاہب کا احترام کرناسکھایا جاتا ہے، ’بھید بھاؤ‘ کو ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اونچ نیچ اور امیر غریب کے فرق سے اوپر اٹھنے کے لیے اس ڈیرے کے ایجنڈے کی وجہ سے ہی دلت اور پسماندہ طبقات کے لوگ اس سے بڑی تعداد میں وابستہ ہوئے ہیں۔
پروین کما ر کا تاہم کہنا ہے، ’’ڈیرے اگرچہ مذہبی اداروں کے طور پر کام کر رہے ہیں، تاہم وہ اب سیاست میں کٹھ پتلی بھی بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد کی بنیاد پر ہی سیاسی جماعتیں بھی ان ڈیروں سے سودے بازی کر لیتی ہیں۔‘‘
بھارت کے بونے فنکار
بھارتی ریاست آسام میں ایک غیر سرکاری تنظیم بونے فنکاروں کے ایک تھیٹر گروپ کی مدد کر رہی ہے۔ اس گروپ کا مقصد دوسروں کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ خود امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے ان فنکاروں کو اعتماد اور حوصلہ دینا ہے۔
تصویر: Bijoyeta Das
کیا کہا جائے
’’کِنو کہو‘‘، یہ ہے اس ڈرامے کا نام، جس کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے کہ ’کیا کہا جائے‘۔ اس ڈرامے میں تقریباً تیس بونے مختلف طرح کے کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ڈرامے کو بھارتی ریاست آسام کے شہر ٹانگلہ میں قائم بونے فنکاروں کے ایک تھیٹر گروپ کا تعاون حاصل ہے، جس کی روحِ رواں پابترا رابھا نامی اداکارہ اور ہدایتکارہ ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
امتیازی سلوک
اس اداکار کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ گھر سے باہر قدم نکالتا ہے، اُس کا دل دکھی ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اُسے کئی طرح کے امتیازی رویے برداشت کرنا پڑتے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ اُسے مسلسل گھورتے رہتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
حقارت آمیز رویے
بھارتی معاشرے میں چھوٹے قد کے ان شہریوں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے مذاق کیے جاتے ہیں، اُن پر ہنسا جاتا ہے۔ اگر ان کوتاہ قد انسانوں کا تعلق کسی غریب گھرانے سے ہو تو پھر اُنہیں اکثر اسکول بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ زیادہ تر وقت اپنے گھروں پر ہی گزارتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
نئے مواقع
ان بونے فنکاروں کے لیے زندگی نئے مواقع لے کر آئی ہے۔ یہ لوگ ملک کے مختلف حصوں میں جاتے ہیں اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سارا سارا دن وہ اپنے ڈرامے کی ریہرسل کرتے ہیں اور تھیٹر ورکشاپوں میں حصہ لیتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
پیشہ ورانہ تربیت
بھارت کے ان پست قد شہریوں کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے، جہاں وہ مختلف طرح کے فنون سیکھتے ہیں۔ اُنہیں کاشتکاری کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں اور وہ آلو، ادرک اور سرسوں وغیرہ کاشت کرتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
کمیونٹی کی مدد
چھٹی کے دنوں میں یہ اداکار بچوں اور اداکاری کا شوق رکھنے والے دیگر افراد کے لیے تھیٹر ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
زندگی کے نئے مفاہیم
اس تصویر میں پچپن سالہ اکشے کمار کو دیکھا جا سکتا ہے، جو اس گروپ کا عمر کے اعتبار سے سب سے بڑا رکن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ تھیٹر نے اُس کی زندگی کو نئے معنی دیے ہیں۔ اس ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے کہ چھوٹے قد کے شہریوں کو اپنے روزمرہ معمولات میں کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ اداکار، جن میں سات خواتین بھی شامل ہیں، رابھا کے ہاں ایک دو کمرے والے تربیتی مرکز میں رہتے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
ایک تخلیق گاہ
پابترا رابھا کا خواب ہے کہ وہ ایک ایسا گاؤں بسائیں، جہاں تھیٹر کے شوقین افراد اور بونے فنکاروں کا یہ گروپ اطمینان سے زندگی گزار سکے اور اپنا روزگار کما سکے۔ رابھا کہتی ہیں:’’گاؤں بسانے کا مقصد ان لوگوں کو تنہا اور الگ تھلگ کر دینا یا کوئی ایسا تفریحی پارک بنانا نہیں ہے، جہاں لوگ بونوں کو دیکھنے کے لیے آئیں بلکہ ان فنکاروں کو ایک ایسی جگہ فراہم کرنا ہے، جہاں وہ ایک بھرپور تخلیقی زندگی گزار سکیں۔‘‘