بھارت میں زندہ دفن کر دی گئی نوزائیدہ بچی بچا لی گئی
15 اکتوبر 2019
بھارتی ریاست اتر پردیش میں پولیس نے ایک ایسی نوزائیدہ بچی کو بچا لیا، جسے اس کے والدین نے زندہ دفن کر دیا تھا۔ اس نومولود بچی کی حالت نازک ہے اور ایک مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر اس کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اشتہار
بھارتی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے منگل پندرہ اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس نومولود بچی کو مٹی کے بنے ایک گھڑے میں بند کر کے اس گھڑے کو تقریباﹰ پورے کا پورا زمین میں دفن کر دیا گیا تھا۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔
تصویر: AP
6 تصاویر1 | 6
ایک مقامی پولیس افسر ابھینندن سنگھ نے بتایا کہ اس نوزائیدہ بچی کے زندہ دفنائے جانے کا پتہ جمعرات دس اکتوبر کو چلا اور اسے فوری طور پر علاج کے لیے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔
ایک کچے گھڑے میں زندہ بند کر دی گئی اس بچی کو ایک ایسی جگہ پر دفنایا گیا تھا، جہاں عام طور پر ہندو عقیدے کے مطابق لاشیں جلائی جاتی ہیں۔
اس بچی کی جان بچانے میں ایک ایسے مقامی تاجر کا کرادر کلیدی اہمیت کا حامل رہا، جس کا پولیس نے نام ہتیش کمار بتایا ہے اور جو وہاں اپنی اس نومولود بیٹی کی آخری رسومات کے لیے گیا تھا، جو مردہ پیدا ہوئی تھی۔
پولیس افسر سنگھ نے بتایا کہ ہتیش کمار نامی تاجر اس وقت حیران رہ گیا جب وہاں کام کرنے والے مزدور اس کی مردہ پیدا ہونے والے بیٹی کی قبر کھود رہے تھے اور اسے کسی بہت چھوٹے سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی۔
اس پر ہتیش کمار نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر اور یہ طے کرنے کے بعد کہ بچے کے رونے کی آواز کہاں سے آ رہی تھی، جب مٹی کے گھڑے کو توڑا، تو اس کے اندر ایک نومولود بچی تھی، جس ابھی زندہ تھی۔
عالمی یوم اطفال، وعدے جو ایفا نہ ہوئے
رواں برس عالمی یوم اطفال کا نعرہ ہے ’بچوں کو آزادی چاہیے‘۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آج یہ دن پورے جوش سے منایا جا رہا ہے، مگر دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں، جہاں بچے شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
بچوں کی جبری مشقت
بنگلہ دیش میں ساڑھے چار ملین سے زائد بچے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ جن میں سے بعض کام انتہائی خطرناک ہیں جب کہ تنخواہ بہت کم۔ مشقت کرتے یہ بچے اس ملک میں کئی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کھیلنے کی بجائے وزن کھینچتے بچے
جس عمر میں بچوں کو اسکول جانا چاہیے اور پرسکون زندگی گزارنا چاہیے، ایسے میں بنگلہ دیش کی اس بچی جیسے لاکھوں بچے، تعلیم کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لڑکی صحت اور نشوونما پر پڑھنے والے منفی اثرات سمجھے بنا کھیلنے کودنے کی عمر میں روزانہ پتھر ڈھوتی ہے۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کام، جشن یا جدوجہد؟
عالمی یوم اطفال کا اصل مقصد بچوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق شعور و آگہی دینا ہے۔ بعض ممالک میں یوم اطفال یکم جون کو منایا جاتا ہے، مگر جرمنی میں یہ دن 20 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ یوم اطفال 20 نومبر کو مناتی ہے۔ اس دن سن 1989 میں عام معاہدہ برائے حقوقِ اطفال طے پایا تھا۔
تصویر: Mustafiz Mamun
مشین کے پرزوں کے لیے کھیل کا وقت کہاں
عالمی یوم اطفال کے دن بھی یہ گیارہ سالہ بچہ اس فیکٹری میں مچھروں سے بچنے والی جالی کی تیاری میں مصروف ہے۔ جنوبی بھارت میں ایسی بہت سی فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، جہاں حفاظتی اقدامات کی حالت مخدوش ہے۔ یہاں زندگی یا جسمانی اعضاء کھو دینے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
دل چیرتا دکھ
بھارت میں انیل نامی ایک خاکروب ہلاک ہو گیا، تو اس کے بیٹے کو کم عمری میں یتیمی دیکھنا پڑی۔ شیو سنی گیارہ برس کا ہے اور یہ تصویر شائع ہو جانے کے بعد بہت سے افراد کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس کے لیے ساڑھے 37 ہزار یورو کے برابر امدادی رقم جمع ہوئی۔
تصویر: Twitter/Shiv Sunny
بچے اب بھی فوج میں بھرتی
بچوں کو فوج میں بھرتی کیا جانا، بچوں کے استحصال کی بدترین قسم قرار دیا جاتا ہے، تاہم یہ نوجوان جنگجو صومالیہ کی الشباب تنظیم کا رکن ہے اور اپنا زخمی ہاتھ دکھا رہا ہے۔ بہت سے بچوں کو جنسی استحصال یا غلامی یا منشیات کی فروخت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Dahir
دیواریں اور سرحدیں
بچوں کی جبری مشقت ہی نہیں بلکہ سرحدوں اور دیواروں نے بھی بچوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا۔ بین الاقوامی تنقید کے بعد آخرکار انہوں نے یہ انتظامی حکم نامہ واپس لیا۔
تصویر: Reuters/J. Luis Gonzalez
محدود آزادی
تین پاکستانی بچیاں گدھا گاڑی چلا رہی ہیں۔ یہ وہ تجربہ ہے، جو کسی امیر ملک میں کوئی بچہ شاید موج مستی کے لیے کرتا، مگر پاکستان کے پدارنہ معاشرے میں ان تین بچیوں کی یہ ’آزادی‘ زیادہ طویل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Seher
8 تصاویر1 | 8
پولیس نے اس بچی کو وہاں سے نکال کر بلاتاخیر بریلی شہر کے ایک ہسپتال پہنچا دیا۔ ابھینندن سنگھ نے بتایا کہ یہ پتہ چلانے کی کوشش جاری ہے کہ اس نومولود بچی کے والدین کون ہیں۔
بھارت میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، ایسے کئی واقعات بھی سننے میں آتے ہیں، جن میں نامولود بچے کی جنس کا علم ہو جانے کے بعد لڑکیوں کی پیدائش سے قبل اسقاط حمل کرا دیا یا پھر نوزائیدہ بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایسا اکثر کم تعلیم یافتہ اور غربت کے شکار طبقات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں ہوتا ہے، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بیٹے پیدا ہوں۔
ایسے غریب گھرانوں میں لڑکیوں کو اس لیے مالی بوجھ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم و تربیت پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ ان کی شادی کے وقت جہیز پر بھی بہت زیادہ لاگت آتی ہے، جو بہت غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑ مسئلہ ہوتا ہے۔
م م / ع ت (اے پی)
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔