1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سخت گرمی، کم از کم 76 ہلاک

17 جون 2019

بھارت کی مشرقی ریاست بِہار میں شدید گرمی کی لہر کے سبب ہفتہ اور اتوار کے روز کم از کم 76 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی حکام نے یہ بات آج پیر 17 جون کو بتائی ہے۔

BG Indien Hitzewelle
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بھارت کے ہنگامی حالات سے نٹمنے والے ادارے کے کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کے روز 33 افراد اورنگ آباد، 31 گایا اور 12 نواڈا کے علاقے میں ہلاک ہوئے۔

حکام کے مطابق، ''ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی تھی جو کھلی جگہوں پر کام کر رہے تھے۔ اس مرتبہ گرمی کی شدت خاص طور پر زیادہ ہے اور گزشتہ کئی روز کے دوران کئی علاقوں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا۔‘‘

بھارت میں گزشتہ تین ہفتوں سے شدید گرمی کی لہر موجود ہے اور ملک کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈز تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla

ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ''یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صرف دو دنوں کے اندر ریاست بہار میں اتنی زیادہ ہلاکتیں رپورٹ کی گئی ہیں۔‘‘

ریاستی طبی حکام نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شدید گرمی کے وقت میں گھروں سے باہر نہ نکلیں اور ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لیے پانی اور مائعات کا زیادہ استعمال کریں۔ متاثرہ علاقوں میں اسکولوں کو بھی بند رکھنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسکول 19 جون تک بند رہیں گے، جب تک گرمی کی یہ لہر برقرار رہنے کی توقع ہے۔

حکام کے مطابق 'ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی تھی۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh

بھارت میں گزشتہ تین ہفتوں سے شدید گرمی کی لہر موجود ہے اور ملک کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈز تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

بھارتی حکام کے مطابق حالیہ رواں موسم گرما میں اب تک بھارت کے دیگر حصوں میں گرمی کے سبب 36 دیگر افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا ہلاک ہونے والوں کی تعداد  100 سے زائد بتا رہا ہے۔

بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق گرمی کی یہ لہر اس علاقے میں مزید پانچ دن تک برقرار رہے گی۔

ا ب ا / ا ا (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں