بھارت کی مشرقی ریاست بِہار میں شدید گرمی کی لہر کے سبب ہفتہ اور اتوار کے روز کم از کم 76 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی حکام نے یہ بات آج پیر 17 جون کو بتائی ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بھارت کے ہنگامی حالات سے نٹمنے والے ادارے کے کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کے روز 33 افراد اورنگ آباد، 31 گایا اور 12 نواڈا کے علاقے میں ہلاک ہوئے۔
حکام کے مطابق، ''ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی تھی جو کھلی جگہوں پر کام کر رہے تھے۔ اس مرتبہ گرمی کی شدت خاص طور پر زیادہ ہے اور گزشتہ کئی روز کے دوران کئی علاقوں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا۔‘‘
ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ''یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صرف دو دنوں کے اندر ریاست بہار میں اتنی زیادہ ہلاکتیں رپورٹ کی گئی ہیں۔‘‘
ریاستی طبی حکام نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شدید گرمی کے وقت میں گھروں سے باہر نہ نکلیں اور ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لیے پانی اور مائعات کا زیادہ استعمال کریں۔ متاثرہ علاقوں میں اسکولوں کو بھی بند رکھنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسکول 19 جون تک بند رہیں گے، جب تک گرمی کی یہ لہر برقرار رہنے کی توقع ہے۔
بھارت میں گزشتہ تین ہفتوں سے شدید گرمی کی لہر موجود ہے اور ملک کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈز تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق حالیہ رواں موسم گرما میں اب تک بھارت کے دیگر حصوں میں گرمی کے سبب 36 دیگر افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتا رہا ہے۔
بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق گرمی کی یہ لہر اس علاقے میں مزید پانچ دن تک برقرار رہے گی۔
موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کيسے متاثر کر رہی ہيں؟
پانی کی قلت، قدرتی آفات ميں اضافہ اور شديد گرمی کی لہریں۔ يہ سب اس بات کی نشانياں ہيں کہ موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کس طرح متاثر کر رہی ہيں اور مستقبل ميں کيا کچھ ہونے والا ہے۔ ديکھيے اس بارے ميں ايک پکچر گيلری۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستانی عوام کو لاحق خطرات
پاکستان ’گلوبل وارمنگ‘ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ايک فيصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں و درجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زائد آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔ سن 2018 کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان سب سے زيادہ متاثرہ خطے ميں واقع
جغرافيائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ايشيا کے وسط ميں واقع ہے۔ پيش گوئيوں کے مطابق اسی خطے ميں درجہ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ايک سابقہ رپورٹ کے مطابق سن 2100 يا اس صدی کے اختتام تک اس خطے ميں اوسط درجہ حرارت ميں چار ڈگری سينی گريڈ تک کا اضافہ ممکن ہے۔
جان و مال کا نقصان
جرمن واچ نامی تھنک ٹينک کے 2018ء کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ کے مطابق پچھلے قريب بيس برسوں ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات کے سبب پاکستان ميں سالانہ بنيادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ريکارڈ کی گئيں۔ اس عرصے ميں طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کے سبب تقريباً چار بلين امريکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ريکارڈ کيے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed
کراچی کو خطرہ لاحق
1945ء ميں پاکستان بھر ميں چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگل تھے تاہم اب يہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک رہ گيا ہے۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات کی صورت ميں دفاع کا کام کرتے ہيں۔ کراچی ميں سن 1945 ميں آخری مرتبہ سونامی آيا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند ميں کسی بڑے زلزلے کی صورت ميں سونامی کی لہريں ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی پہنچ سکتی ہيں اور يہ پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
سيلاب اور شديد گرمی کی لہريں
پاکستان ميں سن ميں آنے والے سيلابوں کے نتيجے ميں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سيلابی ريلوں نے ساڑھے اڑتيس ہزار اسکوائر کلوميٹر رقبے کو متاثر کيا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمينہ دس بلين ڈالر تھا۔ کراچی سے تين برس قبل آنے والی ’ہيٹ ويو‘ يا شديد گرمی کی لہر نے فبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا ديا۔ ماہرين کے مطابق مستقبل ميں ايسے واقعات قدرتی آفات ميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان کيسے بچ سکتا ہے؟
موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کے ليے پاکستان کو سالانہ بنيادوں پر سات سے چودہ بلين ڈالر درکار ہيں۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ يہ فنڈز کہاں سے مليں گے؟ پاکستان کی سينيٹ نے پچھلے سال ايک پاليسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے پچنے کے ليے ايک اتھارٹی قائم کی جانی ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستان کيا کچھ کر سکتا ہے؟
سن 2015 ميں طے ہونے والے پيرس کے معاہدے ميں پاکستان نے سن 2030 تک ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے اخراج ميں تيس فيصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقريباً چاليس بلين ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ پاکستان نے يہ ہدف خود مقرر کیا تھا۔