بھارت میں سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے خزانہ بینک
7 جولائی 2012وہ ہر شام ایک خاص بینک میں جا کر اس رقم کا نصف حصہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے۔ رام سنگھ کا اکاؤنٹ جس بینک میں ہے وہ خاص طور پر سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اسے چلاتے بھی زیادہ تر ایسے ہی بچے ہیں۔
ایسے سٹریٹ چلڈرن کی جمع کردہ یہ رقوم بہت تھوڑی ہوتی ہیں لیکن یہ نابالغ شہری محنت کر کے اپنی کمائی کا ایک حصہ اس لیے جمع کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ آمدنی کا کچھ نہ کچھ حصہ بچا لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔
رام سنگھ بھارت کے ان کئی ملین بچوں میں سے ایک ہے جو زندہ رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی معمولی سا کام یا ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے یقین ہے کہ اس کی مسلسل محنت رنگ لائے گی اور کبھی نہ کبھی اس کے حالات بدلیں گے۔ رام سنگھ کا کہنا ہے، ’میں عقلمند تو ہوں لیکن میرے پاس ابھی اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکوں‘۔
نئی دہلی کے پر ہجوم ریلوے اسٹیشن کے قریب گرمیوں کے موسم میں اپنے ٹی اسٹال پر آنے والے گاہکوں کو شیشے کے گلاسوں میں چائے پیش کرتے ہوئے رام سنگھ نے کہا کہ وہ اس لیے ہر روز اپنی آمدنی میں سے قریب 50 فیصد جمع کرتا ہے کہ جلد ہی اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکے۔ اس بھارتی نوجوان کا کہنا ہے کہ جلد ہی ایسا ایک دن آ بھی جائے گا۔
جس بینک میں رام سنگھ نے اپنا اکاؤنٹ کھول رکھا ہے، اس کا نام چلڈرنز ڈویلپمنٹ خزانہ ہے۔ اس بینک کی پہلی شاخ 2001ء میں نئی دہلی میں کھولی گئی تھی۔ آج پورے بھارت میں اور بیرون ملک اس بینک کی اپنی یا اس کے پارٹنر اداروں کی 300 شاخیں کام کر رہی ہیں۔ بھارت سے باہر اس خزانہ بینک کی شاخیں نیپال، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کرغزستان میں قائم ہیں۔
صرف نئی دہلی میں غریب بچوں کے اس بینک کی 12 شاخیں کھل چکی ہیں۔ بھارتی دارالحکومت میں اس بینک کے زیادہ تر سڑکوں پر زندگی گزارنے والے گاہکوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ ان اکاؤنٹ ہولڈرز کی عمریں عام طور پر 9 اور 17 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔
اس بینک کی شاخیں ایسی عارضی رہائش گاہوں میں قائم ہیں جہاں ان بچوں کو عام طور پر مفت کھانا اور شب بسری کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ دن یا رات کے وقت ان کے لیے ایسی جگہیں کسی اسکول کے کلاس روم کا کام بھی دیتی ہیں۔
خزانہ بینک کی ایسی تمام شاخیں تقریباﹰ یہ بچے خود ہی چلاتے ہیں۔ یہ بچے بینک مینیجروں کے طور پر چھ چھ ماہ کے لیے اکاؤنٹ ہولڈروں کی طرف سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ خزانہ بینک کی کسی بھی شاخ میں کام کرنے والے ایسے رضاکار لیکن نابالغ بینکاروں کی تعداد ہمیشہ دو ہوتی ہے۔
نئی دہلی میں خزانہ بینک کی ایسی ہی ایک شاخ کے 14 سالہ مینیجر کرن نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس بینک میں ایسے بچوں کو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہے جو بھیک مانگتے ہوں یا منشیات فروخت کرتے ہوں۔ کرن خود دن میں شادی بیاہ کی تقریبات میں برتن دھوتا ہے اور شام کے وقت وہ اپنے بینک کے اکاؤنٹ ہولڈروں کے لیے ایک بینکار ہوتا ہے۔ وہ ان سے ان کی رقوم وصول کرتا ہے، ان کی سیونگ بکس میں ایسی رقوم کا اندراج کرتا ہے اور پھر اس بینک کی کرن کی نگرانی میں کام کرنے والی شاخ اگلی شام تک کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔
خزانہ بینک میں اپنی رقم جمع کرانے والے بچوں کے لیے یہ بات بڑی پرکشش ہے کہ انہیں ان کی جمع پونجی پر پانچ فیصد سود ملتا ہے۔ اگر کبھی کسی بچے کو اپنے اکاؤنٹ سے کچھ رقم چاہیے ہو تو دوسرے بچوں سے مشورے کے بعد یہ رقم اسے ادا کر دی جاتی ہے۔ تاہم عام طور پر کھاتہ دار بچوں کو مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جمع کردہ رقوم استعمال میں لانے کی بجائے ان میں اضافہ کریں۔
نئی دہلی میں اس بینک کے ایک اکاؤنٹ ہولڈر کا نام سمیر ہے اور اس کی عمر 14 برس ہے۔ وہ بہت خوش ہے کہ اس نے گزشتہ سات ماہ کے دوران چار ہزار روپے بچا لیے ہیں۔ یہ رقم 70 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ سمیر کا کہنا ہے کہ وہ اس رقم کا کچھ حصہ نکال کر عنقریب ہی اپنے والد کے لیے ایک شرٹ اور ایک گھڑی خرید کر اسے بھجوا دے گا۔ سمیر کے بقول، ’ہو سکتا ہے کہ اس طرح میرا والد مجھے معاف کر دے اور مجھے کہے کہ میں واپس گھر آ جاؤں‘۔
ij / mm / afp