بھارت میں سکھوں کے خلاف فسادات: کانگریسی رہنما کو عمر قید
جاوید اختر، نئی دہلی
17 دسمبر 2018
بھارت میں سکھوں کے خلاف فسادات کے ایک مقدمے میں سینئر کانگریسی رہنما اور سابق رکن پارلیمان سجن کمار کو پیر سترہ دسمبر کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ فیصلہ آئندہ عام انتخابات میں کانگریس کو سیاسی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اشتہار
نئی دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے 1984ء کے سکھ مخالف فسادات کے سلسلے میں یہ فیصلہ پیر کو ایک ایسے وقت پر سنایا گیا، جب تین صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریس پارٹی کے وزرائے اعلیٰ اپنے عہدوں کا حلف لے رہے ہیں۔ ان میں مدھیہ پردیش کے نومنتخب وزیر اعلیٰ کمل ناتھ بھی شامل ہیں۔ ان پر بھی سکھ مخالف فسادات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
سجن کمار کانگریس پارٹی کے چوٹی کے ایسے پہلے رہنما ہیں، جن کو ایسے کسی مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن کانگریس کے درمیان لفظوں کی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔ کانگریس نے بی جے پی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
1984ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ان کے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
ان فسادات میں تین ہزار سے زائد سکھ ہلاک اور ہزاروں دیگر زخمی ہوئے تھے۔ پورے ملک میں چار دنوں تک سکھوں کے خلاف لوٹ مار کا بازار گرم رہا تھا۔ صرف دہلی میں ہی 2733 سکھوں کو قتل کردیا گیا تھا۔
نئی دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’1947ء میں بھارت کی تقسیم کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ اس کے 37 برس بعد دہلی پھر اسی طرح کے فسادات کا گواہ بنا۔ ملزم سیاسی تحفظ کے مزے اٹھاتا رہا اور مقدمات سے بچتا رہا۔‘‘
دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گوئل پر مشتمل بنچ نے سجن کمار کو فسادات کو بھڑکانے اور سازش کرنے کا قصور وار قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا سنائی اور انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا۔ اس سے قبل ایک زیریں عدالت نے اس معاملے میں سجن کمار کو بری کر دیا تھا، جس کے خلاف متاثرہ فریق اور مرکزی تفتیشی بیورو نے ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کر دی تھی۔
ہزاروں بھارتی کسانوں کا احتجاج
بھارتی شہر ممبئی میں ہزاروں کسانوں نے حکومت سے قرضوں کی معافی ، فصلوں کی بہتر قیمتوں اور کاشت کرنے والی سرکاری زمین کے حوالے سے حقوق کے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/R. Choudhary
سرخ پرچموں کا سمندر
سرخ ٹوپیاں پہنے اور ہاتھوں میں سرخ پرچم تھامے بھارتی کسان ممبئی سے 165 کلو میڑ دور واقع علاقے ناشک سے چھ دن کی پیدل مسافت طے کرتے ہوئے ممبئی پہنچے۔ ان کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مارچ کی گرمی میں کئی کسان ننگے پاوں یہاں تک پہنچے ہیں۔
تصویر: REUTERS
حکومت سے امداد کا مطالبہ:
کسان چاہتے ہیں کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ فصل کی پیداوار پر جو لاگت آئی ہے، کسانوں کو کم از کم اس لاگت سے ڈیڑھ گنا زیادہ منافع ملے۔اس کے علاوہ زرعی اراضی پر تمام قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ ان مظاہرین میں کئی ایسے افراد بھی ہین جو کئی نسلوں سے اس زمینوں پر کاشت کر رہے ہیں جو ان کی اپنی نہیں۔ یہ کسان چاہتے ہیں کہ ان زمینوں پر ان کی ملکیت تسلیم کی جائے۔
تصویر: AFP/Getty Images
مسئلے کے حل کی کوشش:
مہاراشٹر حکومت کے مطابق یہ ان مطالبات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس مہاراشٹر کے چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ کسانوں کو دیے جانے والے 305 بلین روپے کے قرضے معاف کر دیے جائیں گے۔
تصویر: P. Paranjpe/AFP/Getty Images
زراعتی بحران
مہاراشٹر بھارت کی سب سے اہم زرعی ریاست ہے۔ حالیہ برسوں میں اسے ناکافی بارشوں اور شدید خوشک سالی کے باعث فصلوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف 2017 میں حالات سے تنگ آکر تقریبا 2500 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ تاہم یہ مسائل صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بے چینی میں اضافہ:
رواں برس کسانوں کی بے چینی میں بے حد اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کی جانب سے پچھلے کئی مہینوں نے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ ان کا حکومتی امداد کا مطالبہ بھی شدت پکڑتا جا رہے ہے۔
تصویر: AP
ناکافی کمائی:
بھارتی کسانوں کی ایک بڑی تعداد کم قیمت پر پیداوار کی فروخت اور مسلسل بڑھتے واجب الادا سودی قرضوں کے باعث سخت پریشان ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت چاول اور گندم کے علاوہ دیگر زرعی پیداوار کی خرید انتہائی کم قیمت پر کرتی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بڑا چیلنج:
کسانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مودی کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدنی دگنی کر دیں گے۔ اگر اس وعدے پر عمل نہ کیا گیا تو کسانوں کا یہ احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
7 تصاویر1 | 7
ہائی کورٹ نے سجن کمار کو 31 دسمبر تک خود کو پولیس کے حوالے کر دینے اور اس وقت تک دہلی سے باہر کہیں نہ جانے کا حکم بھی دیا۔ سجن کمارکے علاوہ ملکی بحریہ کے ریٹائرڈ افسر کیپٹن بھاگمل، کانگریس کے سابق کونسلر بلوان کھوکھر اور گردھاری لال کو سنائی گئی عمر قید کی سزا ئیں بھی ہائی کورٹ نے برقرار رکھیں۔
سکھوں کی تقریباً تمام تنظیموں اور پنجاب میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ دوسری طرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے سکھ مخالف فسادات کے ملزمان کے جیل بھیجے جانے کو ’اچھی ابتدا‘ قرار دیا ہے۔ ملکی وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر رہنما ارون جیٹلی نے کہا، ’’یہ ستم ظریفی ہے کہ یہ فیصلہ اس دن آیا ہے، جب کانگریس اپنے ایک ایسے رہنما (کمل ناتھ) کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا رہی ہے، جنہیں سکھ برادری قصور وار مانتی ہے۔‘‘
بی جے پی کی رکن پارلیمان میناکشی لیکھی نے الزام لگایا کہ کانگریس ملزمان کو نوازتی ہے اور اس کی تازہ ترین مثال کمل ناتھ کا مدھیہ پردیش کا وزیر اعلیٰ بنایا جانا ہے۔ خیال رہے کہ کانگریس کے دیگر لیڈروں کے ساتھ ساتھ کمل ناتھ کا نام بھی سکھ مخالف فسادات کے ملزمان میں شامل تھا۔ تاہم فسادات کی چھان بین کرنے والے ناناوتی کمیشن نے شواہد کی کمی کی وجہ سے انہیں ’کلین چِٹ‘ دے دی تھی۔
کانگریس نے بی جے پی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش نہ کرے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بی جے پی اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ قانونی معاملہ ہے اور قانون کو اپنا کام کرنا ہے۔ کانگریس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘
کچھ بھارتی مصنوعات، جو پاکستان درآمد نہیں کی جا سکتیں
پاکستانی وزارت تجارت نے ایک ہزار سے زائد بھارتی مصنوعات کو درآمد کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان میں سے چند دلچسپ اشیا کیا ہیں، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Daimler AG
ٹوتھ پیسٹ
تصویر: Fotolia/djama
ڈائیپرز
تصویر: Getty Images/Tim Boyle
نوٹ بُک، ڈائری، فائل فولڈر
تصویر: DW/M Shawyder
پنسل
تصویر: HECTOR RETAMAL/AFP/Getty Images
قلم، قلم کی نیب، اور سیاہی بھی
تصویر: picture-alliance/OKAPIA/Dr. M. Baumgärtner
شارپنر
تصویر: Fotolia/picsfive
سرجری کے آلات
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
آنکھوں کے لیے قطرے
تصویر: Colourbox
کھانے کے برتن
تصویر: DW/S. Waheed
فروٹ مکسر
تصویر: Vanillaechoes/colourbox
کافی یا چائے بنانے کے برتن
تصویر: R. Gellatly/Z. Marks
ٹریکٹر
تصویر: AFP/Getty Images
ڈبے اور مختلف پیکنگ میٹیریل
تصویر: Imago/Arnulf Hettrich
سوٹ کیس
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/Jagadeesh NV
مختلف اقسام کے کاغذ
تصویر: bahrialtay - Fotolia.com
ٹوائلٹ پیپر
تصویر: picture-alliance/dpa
تولیہ اور رومال
تصویر: colourbox.de
جوتے
تصویر: NOAH SEELAM/AFP/Getty Images
ٹائلیں
تصویر: Colourbox
ایل ای ڈی بلب
تصویر: Reuters
کھیلوں کا سامان
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
استرا اور بلیڈ
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مختلف اقسام کی چرخیاں
تصویر: UNI
کاریں اور گاڑیاں
تصویر: Daimler AG
گاڑیوں کے پرزے
تصویر: Reuters
سائیکل اور ان کے پرزے
تصویر: DW
300 لیٹر سے بڑی پانی کی ٹینکیاں
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Jallanzo
پلاسٹک کی چوڑیاں
تصویر: DW/S.Bandopadhyay
عطریات اور خوشبوئیں
تصویر: DW/L. Tarek
چمڑے کی اشیا
تصویر: DW/Vishwaratna Srivastava
باتھ روم شاور، واش بیسن اور سنک
تصویر: Dounia Cherfaoui
31 تصاویر1 | 31
غلام نبی آزاد نے بی جے پی کو متنبہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اسے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ جن لوگوں کا تعلق 2002ء کے گجرات کے فسادات سے ہے، وہ مرکز میں بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔‘‘ خیا ل رہے کہ گجرات میں فسادات کے وقت نریندر مودی اس ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان فسادات میں دو ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
دہلی ہائی کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بھارت میں ہوئے دوسرے فسادات پر بھی سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا، ’’یہ بے قصور سکھوں کے قتل ہی کی طرح کی بےحد تکلیف دہ یادیں ہیں، جو ہمارے ذہنوں میں ابھی تک موجود ہیں۔ سکھ فسادات کی ہی طرح 1993 میں ممبئی میں، 2002 میں گجرات میں، 2008 میں اڑیسہ کے کندھمال میں، 2013 میں اتر پردیش کے مظفر نگر میں بھی فسادات ہوئے تھے۔‘‘
عدالت نے مزید کہا، ’’ان سبھی اجتماعی جرائم کے واقعات کی مشترکہ بات یہ ہے کہ ان تمام فسادات میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا اور قانونی ایجنسیوں کے تعاون سے سیاسی رہنماؤں کے ذریعے حملے کرائے گئے۔‘‘ ہائی کورٹ کے مطابق، ’’ان معاملات میں جو مجرم تھے، ان کو سیاسی تحفظ دیا گیا، وہ جانچ پڑتال اور سزا سے بچنے میں کامیاب رہے۔ ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہمارے عدالتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسے مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے ہمارے عدالتی نظام کو اور بھی مضبوط بنایا جانا چاہیے۔‘‘
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔