’بھارت میں صوبہ قائم کر لیا ہے‘، دولت اسلامیہ کا دعویٰ
11 مئی 2019
دولت اسلامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس جہادی تنظیم نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ’ولایت الہند‘ نامی ایک نام نہاد صوبہ بنا لیا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے بھارت میں اپنی موجودگی کا پہلی مرتبہ دعویٰ کیا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ دولت اسلامیہ (داعش) نے پہلی مرتبہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھارت میں ایک ’صوبہ‘ بنا لیا ہے، جس کا نام ولایت الہند رکھا گیا ہے۔ جہادی تنظیم کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب کشمیر کے متنازعہ علاقے میں جنگجوؤں اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین ایک تازہ جھڑپ ہوئی ہے۔
دولت اسلامیہ کی نیوز ایجنسی عماق نے جمعے کی شب اس نئے صوبے کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کے جہادیوں نے شوپیاں ڈسٹرکٹ کے علاقے امشپورہ میں ہوئی ایک جھڑپ میں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ دوسری طرف بھارتی پولیس نے بھی کہا ہے کہ شوپیاں میں جمعے کی شام ہوئی جھڑپ میں جنگجو اشفاق احمد صوفی ہلاک کر دیا گیا ہے، جو مشتبہ طور پر اس جہادی تنظیم کے ساتھ وابستگی رکھتا تھا۔
سکیورٹی ماہرین پہلے سے ہی خبردار کرتے آئے ہیں کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کو شکست کے بعد اس جہادی تنظیم سے وابستہ جنگجو دنیا کے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اسی انتہا پسند تنظیم نے ابھی حال ہی میں سری لنکا میں ہوئے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ ایسٹر سنڈے کے دن ہونے والے ان خونریز حملوں کے نتیجے میں 253 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
سائٹ اینٹل گروپ کی ڈائریکٹر ریٹا کاٹز نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں دولت اسلامیہ کے ایک نئے صوبے کے قیام کے دعویٰ کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا شائد اس دعوے کو سجنیدگی سے نہ لے لیکن جہادیوں کے لیے ایسے شورش زدہ علاقے کافی اہم ثات ہو سکتے ہیں اور وہ اپنے دائرہ کار میں وسعت پیدا کر سکتے ہیں۔
ایک فوجی ذریعے نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ صوفی گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں فعال متعدد جنگجو گروہوں سے وابستہ رہا تھا۔ بعد ازاں اس نے دولت اسلامیہ سے وفاداری کا اعلان کر دیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ بھارتی سکیورٹی فورسز پر کئی گرینیڈ حملوں میں بھی ملوث تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شائد صوفی ایسا واحد جنگجو تھا، جو دولت اسلامیہ سے وابستہ تھا۔
روئٹرز کے استفسار کے باوجود بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے عماق کے اس تازہ دعوے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کشمیر کا متنازعہ علاقہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا سبب ہے۔ دونوں ممالک ہی اس علاقے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔
ع ب / ع ح / روئٹرز
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔