بھارت میں ماؤنوازوں کے خلاف آپریشن شروع
18 جون 2009حالیہ دنوں میں ملک کی کئی ریاستو ں بالخصوص مغربی بنگال، جھارکھنڈ، اڑیسہ اور بہار میں بائیں بازو کے ماونواز انتہاپسندوں یا نکسلیوں کی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نکسلیوں کے حملوں میں متعدد سیکیورٹی اہلکار وں کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی ہے اور حالات اب دھماکہ خیز ہوگئے ہیں۔
مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ سے تقریبا 200 کلومیٹر دور مغربی مدنا پور ضلع کے لال گڑھ پر پچھلے کئی ماہ سے حکومت کا کنٹرول تقریبا ختم ہوگیا تھا اور پورا علاقہ بائیں بازو کے انتہاپسند وں کے قبضے میں تھا لیکن حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب نکسلیوں نے ریاست کی حکمراں جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے کئی کارکنوں کو ہلاک کردیا اور دیگر کو علاقے سے باہر نکال دیا۔
انتہاپسندوں نے سی پی ایم کے دفاتر اور کارکنوں کے مکانات کو آگ لگا دی۔ بائیں بازو کے انتہاپسندوں یا ماؤنوازوں کا کہنا ہے کہ تازہ واقعات دراصل ریاستی حکومت کی کارروائیوں کے خلاف عوامی ناراضگی کا اظہار ہیں کیوں کہ مقامی عوام ریاستی پولیس کے ظلم و جبر سے عاجز آچکے تھے۔
اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسیز کو ماؤنواز باغیوں کی خلاف کارروائی کرنے میں شدید دشواری پیش آرہی ہے۔ ماؤنوازوں نے نہ صرف سڑکوں پر درختوں کو گرا کر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں اور خندقیں کھود ڈالی ہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر کھڑا کردیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نکسلیوں کے مسئلے پر کئی بار تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور بدھ کو روس سے واپسی کے دوران نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی یعنی سی پی ایم کی پولٹ بیور و کی رکن اور ممبر پارلیمان برندا کرات نے لال گڑھ کی حالات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ترنمول کانگریس کا نام لئے بغیر حکومت کی حلیف جماعتوں کی خاموشی پر نکتہ چینی کی۔
دریں اثناء مغربی بنگال سے ملحق ریاست اڑیسہ میں کوراپٹ ضلع کے نارائن پٹنہ بلاک میں بھی قبائلیوں اور ماؤنواز باغیوں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ یہاں قبائلیوں نے غیرقبائلیوں کی زمینوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت : عاطف توقیر