بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مظاہرے، گیارہ افراد ہلاک
23 مئی 2018
جنوبی بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بدھ تئیس مئی کے روز بڑھ کر گیارہ ہو گئی۔ یہ مظاہرے خام تانبے کو پگھلانے کے ایک صنعتی پلانٹ میں مجوزہ توسیع کے خلاف کیے جا رہے تھے۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس عوامی احتجاج کے دوران تشدد پر اتر آنے والے ہزاروں مقامی مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ضلع ٹُوٹی کورِن میں خام تانبے کو پگھلا کر اس سے صاف تانبہ حاصل کرنے کا ایک صنعتی پلانٹ پہلے ہی بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلا رہا ہے، اس پلانٹ کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔
دوسری طرف اسی متنازعہ صنعتی پلانٹ میں مجوزہ توسیع کے منصوبے کے خلاف ایک بھارتی عدالت کی طرف سے حکم امتناعی بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ مظاہرین کو شکایت تھی کہ یہ پلانٹ بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے کے علاوہ مقامی آبادی کے لیے صحت کے شدید مسائل اور بیماریوں کی وجہ بھی بن رہا ہے۔
بھارت میں یہ صنعتی پلانٹ ویدانتا گروپ کی ملکیت ہے، جو خام دھاتوں کی صفائی اور کن کنی کے شعبے کی ایک ایسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہے، جس کے صدر دفاتر برطانوی دارالحکومت لندن میں ہیں۔
عالمی یوم ماحولیات کا میزبان بھارت کیا میزبانی کا اہل ہے؟
’پلاسٹک آلودگی کو مات دو‘ کے عنوان سے اس برس پانچ جون کو منائے جانے والے یوم ماحولیات کی عالمی میزبانی بھارت کر رہا ہے لیکن کیا بھارت اس حوالے سے نمائندگی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
تصویر: AP
اس برس حکومتوں، صعنتوں، کمیونٹی اور فرد کی سطح پر زور دیا جائے گا کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے لیے انتہائی نقصان دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع ڈھونڈیں اور پلاسٹک کا استعمال کم کریں۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
دنیا میں ہر سال 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں جو آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/fotototo
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پھینکا جاتا ہے۔ اس میں 60 فیصد آلودگی کا ذمہ دار بھارت ہے
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
بھارت میں ہر برس تقریباً 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر کچرا صرف دریائے گنگا میں ہی پھینکا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Verma
رپورٹ کے مطابق بھارت کا شمار پلاسٹک آلودگی پھیلانے والے دنیا کے چار بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: AP
بھارت کے سینٹرل پلوشن کنٹرول بورڈ کی 2015ء میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق بھارت کے 60 بڑے شہروں میں روز انہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: AP
ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ اگر صورتحال کنٹرول نہ کی گئی تو 2025ء تک سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد سے زیادہ پلاسٹک پر مشتمل کچرے کی تعداد ہو گی۔
کل منگل بائیس مئی کے روز ٹُوٹی کورِن میں اس پلانٹ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے پرتشدد ہو جانے کے نتیجے میں کم ازکم بھی 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات اس بدامنی کے دوران زخمی ہو جانے والے بہت سے مظاہرین میں سے ایک اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ یوں اس حتجاج کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 11 ہو گئی۔
پولیس کے مطابق یہ تمام ہلاکتیں قانون نافذ کرنےو الے اداروں کی اہلکاروں کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں ہوئیں، جو اس لیے مظاہرین پر فائرنگ جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو گئے تھے کہ مشتعل مظاہرین انتہائی پرتشدد ہو گئے تھے اور انہوں نے تامل ناڈو کے ضلع ٹُوٹی کورِن میں اسی نام کے ساحلی شہر میں سرکاری عمارات اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔
تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں عدالت عالیہ اس پلانٹ کی مالک کمپنی ویدانتا کو اس سال تئیس ستمبر تک اس کے ان منصوبوں سے روک چکی ہے کہ اس پلانٹ میں توسیع کرتے ہوئے اس کے قریب ہی خام تانبے کی صفائی کا ایک اور پلانٹ تعمیر کیا جانا چاہیے۔
جنوبی ایشیا میں بحری جہازوں کے قبرستان
بھارت اور بنگلہ دیش میں بحری جہازوں کو توڑنے والے مزدوروں کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران نہ تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تحفظ ماحول کا۔ یہ لوگ جان جونکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
بے یارو مددگار
یہ تصویر بنگلہ دیشی شہر چٹاگونگ کے شپ بریکنگ یارڈ کی ہے۔ اس صنعت میں کام کرنے والے ایک چوتھائی یا پچیس فیصد مزدور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ یہاں پر نہ تو مزدوروں کو کوئی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ماحولیات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
استحصال
نوجوانوں اور کم عمر بچوں سے اکثر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم دی جاتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
غیر محفوظ
ناکارہ جہازوں کو توڑنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدروں کو ہیلمٹ، خاص قسم کے جوتے یا حفاظتی چشمے فراہم کیے جانے چاہییں تاہم نہ تو بھارت اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز میں مزدوروں کا شدید زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
جھلسے ہوئے مزدور
’شیخو‘ چٹاگانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ اس وقت شدید جھلس گیا، جب ايک بحری جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
معذوری
ادریس کبھی شپ بریکنگ صنعت کا ملازم ہوا کرتا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ضائع ہو گئی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
زہریلی آلودگی
شپ بریکنگ سے صرف یہاں کے ملازمین ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے مکین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناکارہ جہازوں سے بہنے والے تیل نے زیر زمین پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ ویلڈنگ کے دوران اڑنے والے دھوئیں نے بھی ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
کوئی امکان نہیں
جن جن علاقوں میں شپ بریکنگ یارڈز یا بحری جہازوں کے قبرستان موجود ہیں، وہاں کا ماحولیاتی نظام درم برھم ہو چکا ہے۔ اب وہاں نہ کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اور نہ ماہی گیری ہو سکتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
آلنگ
بھارتی ریاست گجرات میں آلنگ کا شپ بریکنگ یارڈ بحری جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان کہلاتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق شمالی بھارت سے ہے۔ یہ لوگ انتہائی عام سی کٹیاؤں میں رہتے ہیں۔ 2009ء سے اب تک آلنگ میں دو ہزار چھ سو سے زائد بحری جہازوں کو توڑا جا چکا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
’بچث‘
آلنگ میں مزدروں کے یہ کٹائیں یا مکان بہت چھوٹے ہیں۔ ان میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ بجلی کی سہولت
تصویر: Tomaso Clavarino
وقفہ
شدید بارش کی صورت میں ملازمین کو کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے یہ لوگ کسی بھی متروک جہاز کے عرشے پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
سیاحت بھی
بحری جہازوں کے ان قبرستانوں میں لوگ صرف ملازمت کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی جہازوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ لوگ ہر مرحلے کی تصاویر بناتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
11 تصاویر1 | 11
تامل ناڈو ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس مجوزہ پلانٹ کی تعمیر اب تبھی شروع ہو سکے گی، جب اس مقدمے کی عوامی سطح پر سماعت کے بعد یہ طے ہو جائے گا کہ اس نئے پلانٹ کی تعمیر سے مقامی سطح پر ماحول اور عام شہریوں کے لیے کوئی نئے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔
بھارت میں اس پلانٹ کو مارچ 2013ء میں اس وقت تین ماہ سے زائد عرصے کے لیے بند بھی کر دیا گیا تھا، جب ہزاروں مقامی باشندوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں اس پلانٹ کی وجہ سے سانس لینے میں مشکلات اور مسلسل متلی کی کیفیت کا سامنا رہتا تھا۔
اس وقت بھی اسی پلانٹ کی وجہ سے کم از کم 40 افراد ٹُوٹی کورِن کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے چند کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔