1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو پھانسی

جاوید اختر، نئی دہلی
19 فروری 2021

 متھرا جیل میں شبنم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں۔ اگر سزائے موت پر عمل درآمد ہوا تو وہ آزاد بھارت میں پھانسی پر لٹکائی جانے والی پہلی خاتون ہوں گی۔

Symbolbild Selbstmord
تصویر: vkara - Fotolia.com

اترپردیش میں امروہہ شہر کی رہنے والی اڑتیس سالہ شبنم نے اپنے عاشق کے ساتھ مل کر اپنے کنبے کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اس ہولناک جرم کے لیے سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا اور بھارتی صدر بھی ان کی رحم کی اپیل مسترد کر چکے ہیں۔

تیاریاں تقریباﹰ مکمل

متھرا جیل کے سپرنٹنڈنٹ شیلیندر کمار میتریہ نے میڈیا کو بتایا کہ شبنم کو پھانسی پر لٹکانے کی تاریخ ابھی مقرر نہیں کی گئی ہے لیکن تمام ضروری تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور ڈیتھ وارنٹ جاری ہوتے ہی شبنم کو پھانسی دے دی جائے گی۔ میرٹھ سے پون جلاد کو بلالیا گیا ہے، جس نے نربھیا کیس کے مجرموں کو پھانسی دی تھی۔ بہار کے بکسر جیل سے پھانسی کے لیے خصوصی رسی بھی منگوا لی گئی ہے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ نے مزید بتایا کہ پون جلاد پھانسی گھاٹ کا کئی بار معائنہ کر چکا ہے اور اس میں بعض ضروری ترمیم کا مشورہ بھی دیا ہے۔

بھارت میں صرف متھرا جیل میں ہی خواتین کو پھانسی دینے کا انتظام ہے۔ یہ پھانسی گھاٹ تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے تعمیر کیا گیا تھا لیکن وہاں آج تک کسی کو پھانسی پر لٹکایا نہیں گیا۔ اس پھانسی گھاٹ کی حالت بہت خراب ہے لہذا اسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔

پھانسی دینے کے لیے مخصوص رسی بہار کے بکسر جیل کے قیدی تیار کرتے ہیں۔تصویر: picture-alliance/AP/R. Maqbool

ابھی امید باقی ہے

شبنم کی سزائے موت کے فیصلے کو نچلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک سب نے برقرار رکھا ہے اور بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے بھی رحم کی اپیل مسترد کر دی ہے تاہم ماہرین قانون کا خیال ہے کہ امید اب بھی باقی ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل سارتھک چترویدی کہتے ہیں کہ شبنم سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے ایک اور اپیل کر سکتی ہیں۔ وہ کیوریٹیو پٹیشن داخل کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی شخص کو تمام قانونی چارہ جوئی ختم ہونے تک پھانسی پر نہیں لٹکایا جانا چاہیے۔

شبنم کے بارہ سالہ بیٹے تاج نے بھی بھارتی صدر سے ایک جذباتی اپیل کرتے ہوئے کہا ”صدر انکل جی! پلیز میری ماں شبنم کو معاف کر دیجیے۔"

عشق تیرے انجام پر رونا آیا

امروہہ کے باون کھیڑی گاؤں کی رہنے والی شبنم نے اپنے عاشق سلیم کے ساتھ مل کر 14 اپریل 2008 ء کی رات اپنے کنبے کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ان میں والدین، دو بھائی، بھابھی، چچا زاد بھائی اور دس ماہ کا بھتیجا بھی شامل تھا۔ اس واردات کے چند دنوں بعد ہی دونوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

جائیداد کا کوئی وارث نہ بچے

شبنم سلیم سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن سماجی اور اقتصادی حیثیت میں کافی فرق ہونے کی وجہ سے شبنم کے گھر والے اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ شبنم نے دو مضامین میں ایم اے کر رکھے ہیں اور وہ ایک اسکول میں ٹیچر تھیں جبکہ سلیم محض مڈل اسکول پاس ہے اور یومیہ مزدوری کرتا تھا۔ گرفتاری کے وقت شبنم دو ماہ کی حاملہ تھی۔ ان کے بیٹے کی پیدائش جیل میں ہی ہوئی۔ بھارتی قانون کے مطابق بیٹا پانچ برس تک ماں کے ساتھ رہا۔ بعد میں ایک شخص نے بچے کو گود لے لیا جو اب بارہ برس کا ہو چکا ہے اور ایک اسکول میں زیر تعلیم ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مجرموں نے نہایت چالاکی سے قتل کا پورا منصوبہ تیار کیا۔ شبنم نے رات میں کھانے کے بعد چائے میں نیند کی گولیاں ملادیں اور جب سب لوگ بے خبر ہو گئے تو ان کے گلے کاٹ دیے گئے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے”ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ شبنم کے علاوہ خاندان کا کوئی وارث باقی نہ رہے تاکہ اس کے والدین کی کافی بڑی جائیداد پر قبضہ کر لیا جائے، جو ان کی شادی کے خلاف تھے۔"

پھانسی کی منتظر دیگر خواتین

دو سوتیلی بہنیں رینوکا شنڈے اور سیما گاوت بھی پھانسی کی منتظر ہیں۔ انہیں تیرہ بچوں کے اغوا اور ان میں سے کم از کم پانچ کو قتل کر دینے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

دہلی کی نیشنل لاء یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک 750 سے زائد مردوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران آٹھ افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔

سعودی عرب میں پھانسیاں اور احتجاج

02:26

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں