بھارت میں کسانوں کا یوم سیاہ
23 فروری 2024ہریانہ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کسان رہنماؤں کے خلاف سیاہ قانون نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم آج جمعے کو پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ فی الحال این ایس اے عائد نہیں کیا جائے گا۔
پولیس عوامی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے قانون اور ہریانہ میں امن عامہ میں رخنہ ڈالنے کے دوران املاک کو ہونے والے نقصان پہنچانے کے قانون وغیرہ کے تحت کارروائی کر رہی ہے۔
بھارت: کسانوں کی جانب سے 'یوم سیاہ‘ کا اعلان
حکومتی اور نجی جائیدادوں کو ہونے والے نقصان کا ہرجانہ مظاہرین سے وصول کرنے کے لیے ابھی نقصانات کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ لیکن نقصان کو پورا کرنے کے لیے ان کے بینک کھاتوں کو ضبط اور جائیدادوں کو قرق کیا جائے گا۔
یوم سیاہ
تنظیموں نے مظاہرے کے دوران ایک کسان کی موت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آج جمعے کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب ہریانہ سرحد پر کھنوری کے مقام پر بدھ کے روز ہریانہ پولیس کے ذریعہ آنسو گیس کے شیل داغنے سے ایک بائیس سالہ کسان شبھ کرن کے سرپر چوٹ لگنے سے ان کی موت ہو گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کی لاش ابھی تک ہسپتال میں رکھی ہوئی ہے اور کسان رہنما پولیس کو اس کی پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
بھارتی کسانوں کا دہلی مارچ اور پر تشدد جھڑپیں
کچھ کسان لیڈروں نے سنگھ کو ''شہید‘‘ کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے اور لوگوں سے ان کے ''قتل‘‘ کے خلاف اپنے اپنے مکانوں اور دکانوں اور گاڑیوں پر سیاہ پرچم لگانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا پتلا جلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
کسان تنظیموں نے ملک بھر میں 26 فروری کو ٹریکٹر مارچ اور 14مارچ کو دہلی میں 'مہا پنچایت‘ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے متوفی کے خاندان کو ایک کروڑ روپے کی مالی امداد اور ایک شخص کو سرکاری ملازمت دینے کا اعلان کیا ہے۔
کسانوں نے بات چیت کی نئی تجویز مسترد کردی
کسانوں کی تحریک کی قیادت کرنے والی تنظیم سمیت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے شبھ کرن سنگھ کی ہلاکت کے لیے ہریانہ سرکار کے افسران اور ریاست کے وزیراعلیٰ کے خلاف قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر ہریانہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہروں کے دوران اس کے دو پولیس اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ ایک کو برین ہیمرج ہوا ہے، جب کہ پچیس دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران ایک کسان رہنما نے جمعرات کو بتایاکہ مرکزی حکومت کی جانب سے بات چیت کی نئی تجویز مسترد کر دی گئی ہے۔
'مودی حکومت کے حکم پر عمل ہو گا، تاہم اس سے متفق نہیں ہیں‘
کسان رہنما ابھیمنیو کوہر نے بتایا، ''ہمیں کل شام بات چیت کی دعوت ملی تھی لیکن ہم نے اسے مسترد کردی۔ ایک طرف ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرح حکومت ہم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ماحول میں یہ ممکن نہیں۔ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت پہلے حالات کو بہتر بنائے۔‘‘
مرکزی فوڈ سکریٹری سنجیو چوپڑا کے مطابق حکومت کو امید ہے کہ کسانوں کے احتجاج کا کوئی حل جلد ہی نکل آئے گا۔ جب کہ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کی حکومت گاؤں سے متعلق منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے اور مختلف اسکیموں اور منصبوں کے ذریعے چھوٹے کسانوں کے حالات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنے اور کسانوں کے مسائل پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔