1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کسان امریکی کولا کے خلاف برسرپیکار

24 اپریل 2010

بھارت میں کولا مشروبات بنانے والی امریکی کمپنیوں اور مقامی زمینداروں کے مابین پانی کے معاملے پر تنازعہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

تصویر: AP

حال ہی میں ریاست کیرالہ نے کوکا کولا پر زرعی زمین کو آلودہ کرنے اور بہت زیادہ زیر زمین پانی نکالنے کی پاداش میں 47 ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اسی طرز کی ایک اور فیصلے میں پیپسی کولا سے زیر زمین پانی کے اخراج میں کمی کرنے کا کہا گیا ہے۔

کیرالہ کے وزیر پانی این کے پریم چندرن کے بقول کوکا کولا کو متاثرہ کسانوں کو زر تاوان ادا کرنا ہوگا جبکہ پیپسی کو میٹر نصب کر کے روزانہ کے حساب سے زیر زمین پانی کے اخراج کا حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ زرعی زمین کولا کمپنی کو دینا غلط فیصلہ تھا تاہم اس زمانے میں بھارت صعنتی ترقی کا خواہاں تھا مگر اب ماحول کا بچاؤ اہم معاملہ ہے۔

تصویر: AP

کیرالہ کی ریاستی حکومت کو ان اقدامات پر مقامی کسانوں نے مجبور کیا ہے۔ کیرالہ کے کسان گزشتہ طویل عرصے سے ان بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے زیر زمین پانی کے بے دریغ اخراج کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے بانی آر اجاین کے بقول ایسے علاقے میں، جہاں پہلے ہی کسانوں کو زراعت کے لئے وافر پانی دستیاب نہیں، ان کمپنیوں کو پلانٹ لگانے دینا غیر اخلاقی اور مجرمانہ عمل ہے۔

کیرالہ میں کوکاکولا کا پلانٹ 1999ء سے 2004 ء تک کام کرتا رہا، جہاں کسانوں نے زیر زمین پانی کی سطح میں بہت زیادہ کمی کی شکایت کی ہے۔ اسی طرح کی شکایات کوکاکولا کے جے پور میں قائم ’بوٹلنگ پلانٹ‘ سے متعلق بھی کی جاتی ہیں۔ کیرالہ کے طاقتور کمیونسٹ اور امریکہ مخالف سیاست دان کوکاکولا کو پلانٹ بند کرنے پر مجبور کر چکے ہیں۔

پیپسی اور کوکا کولا کی جانب سے جاری بیانات میں ان الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی کمپنی کوکا کولا کی مشروبات کی فروخت میں دنیا کے دیگر ممالک میں کمی دیکھی جا رہی ہے البتہ بھارت، روس، برازیل اور مصر میں ان کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کمپنی کو گزشتہ سال مجموعی طور پر 6.8 ارب ڈالر کا نفع ہوا ہے۔

عالمی بینک کی گزشتہ ماہ جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق زیر زمین پانی کے اخراج کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اگلے پندرہ سال میں بھارت میں زیر زمین پانی کا 60 فیصد خطرے میں پڑ جائے گا۔

دہلی میں مقیم ماہر ماحولیات اشیما رائےچودھری کے بقول اگر صنعتوں کو پانی کے استعمال کے حوالے سے ضوابط کا پابند نہ بنایا گیا تو مستقبل میں یہ صورتحال مزید سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں