بھارت میں اب ’گائے سائنس‘ پر قومی سطح کا امتحان لیا جائے گا۔ وزیراعظم مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ’مقدس گائے‘ کی حفاظت اور فروغ کی خاطر آئندہ ماہ ملک گیر سطح پر اس موضوع پر امتحان منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
حکومتی ادارے 'راشٹریہ کام دھینو آیوگ‘ (قومی گائے کمیشن) کے زیر انتظام قومی سطح کا یہ آن لائن امتحان 25 فروری کو منعقد ہو گا، جس میں بچوں سے لے کر بالغوں تک حتی کہ غیر ملکی بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ امتحان میں ہندی اور انگریزی سمیت بارہ علاقائی زبانوں میں 100 ملٹپل چوائس سوالات (ایم سی کیو) پوچھے جائیں گے اور کامیاب افراد کو سند اور انعامات دیے جائیں گے۔
گائے مکمل سانئس ہے
راشٹریہ کام دھینوآیوگ (آر کے اے) کے چیئرمین اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان ولبھ بھائی کتھیریا کا کہنا ہے کہ اس امتحان کا مقصد عوام میں گائے کی اہمیت کے حوالے سے 'تجسس پیدا کرنا‘ اور اس مقدس جانور کے تئیں 'احساس‘ جگانا ہے۔
ولبھ بھائی کتھیریا کا کہنا تھا کہ 'گائے سائنس‘ کے بارے میں لوگوں کو جاننے کی ضرور ت ہے، ”گائے اپنے آپ میں ایک مکمل سائنس ہے۔ اگر ہم بھارت کی پانچ کھرب ڈالر کی معیشت کی بات کرتے ہیں تو اس میں انیس کروڑ سے زائد گائے اور بچھڑوں کی بھی اہمیت ہے۔ یہ معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر گائے دودھ نہیں دیتی ہے تب بھی اس کا پیشاب اور گوبر قیمتی ہے۔ اگر ہم ان کا استعمال کریں تو اس سے نہ صرف گائے کو بچایا جاسکتا ہے بلکہ ہماری پوری معیشت بھی اپنے راستے پر آسکتی ہے۔"
دلچسپ دعوے
قومی گائے کمیشن کے چیئرمین کتھیریا نے بتایا کہ اس مقابلے کے چار حصے ہوں گے، جس میں اسکول کے طلبہ سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نیز عام شہری اور غیر ملکی بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
آر کے اے نے اس امتحان کے لیے ایک نصاب اور 54 صفحات پر مشتمل 'تحقیقی‘ مواد بھی جاری کیا ہے۔ اس میں بعض بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ گائے کے دودھ میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں اور اس جانور کے ذبح کرنے کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔ آر کے اے کی طرف سے فراہم کردہ اسٹڈی میٹریل میں بتایا گیا ہے کہ کئی برسو ں تک روزانہ گائے ذبح کرنے سے مرتے ہوئے جانور کی کراہ سے پیدا ہونے والی لہروں کا اثر چٹانوں پر پڑتا ہے۔
اسی طرح گائے کے گوبر سے زہریلی گیسوں کے بے اثر ہو جانے کا دعوی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے،''سن 1984 میں بھوپال گیس سانحے کے دوران بیس ہزار سے زائد لوگوں کی موت ہوگئی لیکن جو لوگ گائے کے گوبر سے پتائی کئے ہوئے گھروں میں تھے ان پر اس زہریلی گیس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔"
گائے کیوں بن رہی ہیں یہ خواتین؟
بھارتی فوٹوگرافر سجاترو گھوش نے اپنے ایک پراجیکٹ میں ایک سیاسی سوال اٹھایا ہے کہ کیا بھارت میں خواتین کی وقعت گائے سے کم ہے؟ انہوں نے گائے کے نام پر تشدد اور تحفظ خواتین کے مسئلے کو عمدگی سے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
کیا گائے کی اہمیت زیادہ ہے؟
تئیس سالہ فوٹوگرافر سجاترو گھوش کہتے ہیں کہ ان کے اس پراجیکٹ کا مقصد خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے مسئلے کو اٹھانا ہے۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم گائے کو بچا سکتے ہیں تو پھر خواتین کو کیوں نہیں۔‘‘
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
حقوق نسواں کے لیے آواز
گھوش کا کہنا ہے کہ گائے کو بچانے کے نام پر لوگوں کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے لیکن خواتین کے تحفظ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
گائے کے ماسک
گھوش کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی دوستوں اور خاندان کی خواتین کو گائے کا ماسک پہنا کر ان کی تصاویر اتاریں۔ لیکن اب بہت سی اور خواتین بھی ان کے پراجیکٹ کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
سماجی دشواریاں
بھارت میں جنسی حملوں کے بہت سے کیس تو درج ہی نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ کئی بار متاثرہ خاتون کو حملہ آوروں کی جانب سے دوبارہ پریشان کیے جانے کا ڈر رہتا ہے۔ سماجی سطح پر ایسے دقیانوسی نظریات عام ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے خاموش بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
گائے کے نام پر تشدد
حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں گائے کے نام پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ کئی واقعات میں تو گائے کا گوشت مبینہ طور پر کھانے پر لوگوں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.F. Monier
خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں سن 2012 خواتین کی حفاظت کے لیے قوانین سخت کر دیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود سن 2015 میں خواتین کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 327،390 واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گھوش پر تنقید
اس دوران سجاترو گھوش کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ بہت سے لوگ ان پر گائے کی توہین کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
تصویر: AP
بہتری کی امید
گھوش کو امید ہے کہ لوگ ان کے اس پیغام کو درست طریقے سے سمجھیں گے کہ جس طرح گائے کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔
تصویر: Getty Images
8 تصاویر1 | 8
آر کے اے کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق دیسی گائے، غیر ملکی (جرسی) گائے سے یکسر مختلف ہوتی ہے،'' دیسی گائے بہت طاقت ور اور عقلمند ہوتی ہے۔ وہ گندے جگہوں پر نہیں بیٹھتی جبکہ جرسی گائے کاہل ہوتی ہے اور اس کے بیمار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص دیسی گائے کے قریب آتا ہے تو فورا ً کھڑی ہوجاتی ہے لیکن دوسری گایوں میں یہ جذبہ نہیں نظر آتا ہے۔"
اشتہار
ایسے دعوے جگ ہنسائی کا سبب
ولبھ بھائی کتھیریا پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ ماضی میں بھی گائے سے ہونے والے فوائد بتاتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے گائے کے گوبر سے تیار کردہ چِپ لانچ کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس سے موبائل فون کی تابکاری کافی حد تک کم ہوجاتی ہے اور اس سے بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے دعوی کیا تھا،''پنچ گؤ (گائے سے ملنے والی پانچ چیزیں۔ دودھ، دہی، گھی، گوبر، پیشاب) پر مبنی آیورویدک علاج سے کووڈ انیس کے اب تک آٹھ سو سے زائد مریض شفایاب ہوچکے ہیں۔ ان مریضوں کو پانچ سے چودہ دنوں کے علاج سے ہی شفا مل گئی اور کسی طرح کی پیچیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی۔
کورونا وائرس کا مقابلہ گائے کے پیشاب سے کرنے کی کوشش
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
’طبی لحاظ سے فائدہ مند‘
بھارت میں کچھ ہندو گروپوں کا اصرار ہے کہ گائے کا پیشاب طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، اس لیے اسے پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گائے بھی مقدس اور پیشاب بھی
تقریب میں شامل ایک خاتون گائے کا پیشاب پیتے ہوئے۔ ہندو مت میں گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ سے کہ کچھ قدامت پسند ہندوؤں میں اس طرح کے فرسودہ خیالات رائج ہیں۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
کوئی طبی شواہد نہیں
تقریب میں شامل ایک ہندو پیشاب پیتے ہوئے۔ تاہم طبی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ گائے یا اونٹ کا پیشاب کینسر یا کسی دوسری بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک میں کچھ حلقے اونٹ کے پیشاب کو بھی طبی لحاظ سے شافی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
ایسی مزید پارٹیاں ہوں گی
گائے کا پیشاب پینے کی پارٹی 'آل انڈیا ہندو یونین‘ کے نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد کی گئی تھی۔ منتظمین نے کہا ہے کہ اسی طرح کی پارٹیاں دیگر بھارتی شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’یہ پیشاب کورونا وائرس کو توڑ‘، مہاراج
’آل انڈیا ہندو یونین‘ کے سربراہ چکراپانی مہاراج نے اس تقریب کے دوران کورونا وائرس کے فرضی کیریکیچر (خاکے) کے ساتھ ایک تصاویر بھی بنوائی، جن میں وہ گائے کے پیشاب کا پیالہ تھامے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیشاب کو کورونا وائرس کا توڑ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’انگریزی دوا کی ضرورت نہیں‘
اس پارٹی میں شریک ہونے والے اوم پرکاش نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''ہم گزشتہ اکیس برسوں سے گائے کا پیشاب پیتے آ رہے ہیں اور ہم گائے کے گوبر سے نہاتے بھی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انگریزی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کینسر کا علاج‘
طبی ماہرین کے علاوہ بھارت میں رہنے والے اکثریتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا پیشاب یا گوبر طبی لحاظ سے کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنما وکالت کرتے ہیں کہ گائے کا پیشاب ایک دوا ہے اور اس سے بالخصوص کینسر کا علاج ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کورونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار‘
ریاست آسام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے حال ہی میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب اور گوبر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عالمی وبا سے دنیا پریشان
کووڈ انیس کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے لگ بھگ متاثر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دسمبر چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس بیماری کے خلاف جلد از جلد کوئی دوا تیار کر لی جائے۔
تصویر: Reuters/D. Ruvic
10 تصاویر1 | 10
حالانکہ ڈاکٹر کتھیریا کے اس بیان کی بھارتی سائنسی برادری نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے دعوؤں سے بھارت کی سائنسی کمیونٹی کا دنیا بھر میں مذاق بنتا ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں سائنس داں گوہر رضا کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ”ایسے دعوؤں سے دنیا نہ صرف ہم پر ہنستی ہے بلکہ ہماری سائنٹفک کمیونٹی بھی بدنام ہوتی ہے۔ کم از کم ملک کے رہنماؤں، وزیروں یا حکومتی ادارے کے سربراہوں کو تو اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔"
بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت گائے کو انتہائی مقدس سمجھتی اور ماں کا درجہ دیتی ہے۔ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت گائے کے گوبر اور پیشاب کی تحقیق اور ان سے مصنوعات کی تیاری پر کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہے۔ دوسری طرف گائے کی حفاظت کے نام پر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر حملے ہوتے رہے ہیں، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔