1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی کے پیچھے سیاست

28 دسمبر 2024

آسام سے لے کر کیرالہ تک بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی گہری ثقافتی، مذہبی اور سیاسی تقسیم کو آشکار کرتی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ گائے کا گوشت کس طرح اس جنوبی ایشیائی ملک میں تقسیم پیدا کر رہا ہے۔

ایک ہندو خاتون گائے کی تعظیم کرتے ہوئے۔
اس وقت بھارت کی 28 میں سے 20 ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مختلف قوانین موجود ہیں، جن میں گائے کو ذبح کرنے اور اس کے گوشت کی فروخت پر پابندی بھی شامل ہے۔تصویر: Rajesh Kumar Singh/AP Photo/picture alliance

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے شہر بونگائی میں رہنے والے کالیب کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت ان کا پسندیدہ سرخ گوشت ہے۔

لیکن اب انہیں ریاستی حکومت کے اس فیصلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں ریستورانوں اور تقریبات سمیت عوامی مقامات پر گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

2021 میں آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے پہلے ہی ان علاقوں میں گائے کے گوشت اور اس سے بنی مصنوعات کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں گائے کا گوشت نہ کھانے والوں کی اکثریت تھی یا جو مندروں کے قریب تھے۔

کالیب کہتے ہیں، ''حکومت مجھے اس آزادی سے محروم کر رہی ہے کہ میں کیا کھاتا ہوں۔‘‘ ان کے بقول یہ جان بوجھ کر ان کے غذائی حقوق پر حملہ کرنا ہے، جو بالکل بھی آئینی نہیں ہے۔

اگرچہ کالیب جیسے لوگ اب بھی گائے کا گوشت خرید سکتے ہیں اور اسے گھر پر کھا سکتے ہیں، تاہم بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ سہولت بھی دستیاب نہیں۔
 

گائے کا گوشت تقسیم کی وجہ کیسے؟

بھارت میں گائے کا گوشت ایک متنازعہ موضوع ہے کیونکہ گائے ہندوؤں کی اکثریت کے لیے مقدس ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ مسلمانوں، مسیحیوں، کچھ مقامی برادریوں اور دلتوں کی غذا کا حصہ بھی ہے۔ دلت تاریخی طور پر ایک ایسا پسماندہ گروہ ہیں، جو بھارت کی صدیوں پرانی اور ذات پات کی امتیازی درجہ بندی کی نچلی ترین سطح سے تعلق رکھتا ہے۔

گائے کے تحفظ کے نام پر بھارت میں مہلک تشدد کے واقعات ہوتے ہیں کیونکہ خود ساختہ 'گؤ رکشک‘ یعنی گائے کے محافظ، ان پابندیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تصویر: DW

علاقائی طور پر شمالی اور وسطی بھارت میں گائے کے گوشت کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ یہ کیرالہ اور گووا جیسی ریاستوں اور شمال مشرقی خطے کے زیادہ تر حصوں میں ثقافتی اہمیت رکھتا ہے۔

اس وقت بھارت کی 28 میں سے 20 ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مختلف قوانین موجود ہیں، جن میں گائے کو ذبح کرنے اور اس کے گوشت کی فروخت پر پابندی بھی شامل ہے۔

بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی ایک متنازعہ یا پولرائزنگ ایشو رہا ہے جس میں مذہب کو ثقافت اور سیاست سے جوڑنا بھی شامل ہے۔

آسام میں گائے کے تحفظ کے نام پر لگائی گئی حالیہ پابندی نے بھارت کی کثیر الثقافتی شناخت، انتخاب کی آزادی اور معیشت پر اس طرح کے قوانین کے مضمرات پر بحث کو جنم دیا ہے۔


مذہبی نظریے کو زبردستی لاگو کرنا؟

اس کی ثقافتی حیثیت سے ہٹ کر گائے کے گوشت پر پابندی کو سیاسی سیاق و سباق میں ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، اور اس کے نام پر مہلک تشدد کے واقعات ہوتے ہیں کیونکہ خود ساختہ 'گؤ رکشک‘ یعنی گائے کے محافظ، ان پابندیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی 2023 کی رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کی مثالیں دی گئیں، اور ایسے واقعات کا حوالہ دیا گیا جو ان الزامات کی وجہ سے شروع ہوئے کہ مسلمان مرد بیف یعنی گائے کے گوشت کی تجارت میں حصہ لے رہے تھے۔

تاہم بھارتی حکومت نے اس رپورٹ کو 'انتہائی متعصبانہ‘ قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ 'مسائل کو یکطرفہ طور پر پیش کرنے‘ کی عکاسی کرتی ہے۔ نئی دہلی حکومت اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد تمام بھارتی باشندوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت کے لیے ہندو مذہب اس کے بنیادی اصولوں کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی نے گائے کے گوشت پر پابندی کے بارے میں ایک طے شدہ موقف اختیار کیا ہے۔تصویر: Ritesh Shukla/Getty Images

پین اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایشین اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر اپرنا پاریکھ نے بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد پر تحقیق کی ہے۔ پاریکھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی اس کے ثقافتی اور تاریخی سیاق و سباق سے جڑی ہوئی ہے، جہاں گائے کا احترام اور گائے کے گوشت سے پرہیز ''ہندو شناخت، خاص طور پر اونچی ذات کی ہندو شناخت کا مرکز ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس لیے گائے کے گوشت پر پابندی ایک مذہبی گروہ کی ترجیحات کو دوسروں پر ترجیح دینے کی عکاسی کرتی ہے، جو اکثر ان برادریوں کے خلاف تشدد کا جواز بھی پیش کرتی ہے جنہیں گائے کا گوشت کھانے والا سمجھا جاتا ہے۔

یہ پابندی مکمل طور پر نئی نہیں ہے بلکہ اس نے اب نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں یہ اقلیتی گروہوں کے خلاف ہتھیار بن گئی ہیں۔
 

گائے کے گوشت کی سیاست

اس ثقافتی اور نظریاتی تناؤ نے سیاسی جماعتوں، خاص طور پر بی جے پی کی حکمت عملی کو بھی متاثر کیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت کے لیے ہندو مذہب اس کے بنیادی اصولوں کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی نے گائے کے گوشت پر پابندی کے بارے میں ایک طے شدہ موقف اختیار کیا ہے۔

حالانکہ پارٹی نے کئی ریاستوں میں، خاص طور پر شمالی اور وسطی بھارت میں سخت پابندیاں عائد کی ہیں، گووا اور کچھ شمال مشرقی ریاستوں جیسے اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میگھالیہ اور تری پورہ میں تاہم زیادہ رواداری اپنائی گئی ہے۔

بی جے پی کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے آسام سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ''میرا ماننا ہے کہ سنگھ پریوار (ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک خاندان، جس میں بی جے پی بھی شامل ہے) کا مجموعی نقطہ نظر ہندتوا کے تصور میں مختلف گروہوں کو شامل کرنا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ شمال مشرق میں مذہب تبدیل کر کے مسیحی بننے والوں سمیت قبائلی آبادی کو اپنی اصل ہندو جڑوں سے دوبارہ جڑنے کا قائل کرنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں، ''اس حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر وہ شمال مشرقی ریاستوں، گووا اور کیرالہ جیسے علاقوں میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، جہاں کھانے یا گائے کے گوشت پر پابندی کے بارے میں ہندو قوم پرستانہ بیان بازی مقامی آبادی کو الگ تھلگ کر سکتی ہے۔ ان علاقوں میں مقامی باشندوں کے جذبات کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے زیادہ سوچ سمجھ کر اور کم محاذ آرائی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔‘‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ آسام میں علاقائی حساسیت پر نظریاتی دعوے کو ترجیح دیتے ہوئے سخت لائن کی طرف نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ حالانکہ آسام میں گائے کے گوشت پر حالیہ پابندی کے خلاف بی جے پی کے اندر سے بھی مزاحمت اس مسئلے پر پولرائزیشن کی نوعیت کو اجاگر کرتی ہے۔

پڑوسی بھارتی ریاست میگھالیہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی سنبور شولائی نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''کوئی بھی یہ حکم نہیں دے سکتا کہ لوگوں کو کیا کھانا چاہیے۔ یہ ایک انفرادی انتخاب ہے۔ میں اس کی سخت مخالفت کرتا ہوں۔‘‘

کیرالہ میں بی جے پی کے ریاستی نائب صدر میجر روی نے بھی اپنی مرضی سے کھانے کی آزادی کا مطالبہ کیا۔

بھارت میں گائے کا گوشت ایک متنازعہ موضوع ہے کیونکہ گائے ہندوؤں کی اکثریت کے لیے مقدس ہے۔تصویر: AP


’مزاحمت کی علامت‘

آسٹریلیا کی ڈیکن یونیورسٹی کی یامنی نارائنن کا، جنہوں نے گائے کی سیاست کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران دیکھا کہ ''گائے کے گوشت کو مختلف بھارتی برادریوں کی ثقافتی شناخت میں کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘

نارائنن نے نشاندہی کی کہ انہوں نے اپنی تحقیق کے دوران مسلم اور دلت افراد سے بات کی اور ان کا کہنا تھا کہ ان کی غذا میں گائے کا گوشت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم چونکہ اسے ان کے خلاف ہتھیار بنایا گیا ہے، اس لیے اب یہ ان کے لیے مزاحمت کی ایک علامت بھی بن گیا ہے۔

نارائنن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گائے کو ذبح کرنے سے متعلق بنیادی محرک گائے کا گوشت نہیں بلکہ ڈیری ہے، جس حقیقت کو اکثر سیاسی بحثوں میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔


پابندی کے غذائی اثرات

تاجروں پر گائے کے گوشت پر پابندی کے معاشی اثرات کے علاوہ، خاص طور پر کم آمدنی والے گروپوں پر غذائیت کے حوالے سے بھی اس کا اثر ہے۔

ہنٹس وِل میں واقع الاباما یونیورسٹی کی وفا حکیم اورمین نے بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی کی غذائیت کے حوالے سے قیمت پر تفصیلی تحقیق کی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت میں عام لوگوں میں آئرن کی کمی کے سبب خون کی کمی بہت زیادہ ہے۔

2019 اور 2021 کے درمیان کیے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق بھارت میں 15 سے 49 سال تک کی عمر کی تقریباﹰ 57 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار تھیں۔

بھارت کے ان علاقوں میں جہاں گائے کے گوشت کی کھپت کو ثقافتی طور پر قبول کیا جاتا ہے اور قانونی طور پر اجازت دی جاتی ہے، جیسے کیرالہ اور گووا وغیرہ میں، وہاں گائے کے گوشت سے بنی اشیاء گوشت کی دیگر مصنوعات کے مقابلے میں اکثر زیادہ سستی ہوتی ہیں۔

وفا حکیم کے بقول، ''کم آمدنی والے مسلمانوں، مسیحیوں اور دلتوں کے لیے گائے کا گوشت پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان گروپوں میں 15 سے 35 سال تک کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں خون کی شدید کمی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

مسلمان قصائی ہندو قوم پرستوں کے نشانے پر

03:19

This browser does not support the video element.

انہوں نے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا جو خون کی کمی کو صحت عامہ اور غذائیت کے مسئلے کے طور پر حل کرے۔
 

انتخاب کی آزادی

آخر میں، شاید، گائے کے گوشت کے معاملے پر موجود تناؤ کا حل بھارت کی کثیر الثقافتی شناخت میں مضمر ہے۔

ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی خاتون سینٹی وانگناؤ نے آسام کے ایک ہندو شخص سے شادی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گائے کا گوشت کھا کر بڑی ہوئی ہیں، جبکہ ان کے شوہر ایسا نہیں کرتے۔

وانگناؤ کہتی ہیں کہ غذائی اختلافات کے باوجود وہ اور ان کے شوہر ایک بات پر متفق ہیں، ''لوگوں کو وہ کھانے کی اجازت ہونا چاہیے جو وہ کھانا چاہتے ہیں۔‘‘

 

شکیل سبحان، نئی دہلی (ا ب ا/م م)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں