1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہندی زبان’مسلط‘ کرنے کی مخالفت

جاوید اختر، نئی دہلی
4 جون 2019

بی جے پی کی قیادت میں قائم حکومت پورے ملک میں طلبہ پر ہندی زبان کو نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس مبینہ پلان کے خلاف کئی ریاستوں اور حکومت کی حلیف جماعتوں کے احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے۔

Indien Ghatsila Jharkhand - Bengali sprechende eröffnen Schule um Bengalisch zu unterrichten
تصویر: DW/P. Samanta

اسکول کے طلبا کو ہندی لازمی طور پر پڑھانے کی وفاقی حکومت کی تجویز پر غیرہندی ریاستوں بالخصوص تمل ناڈو، تلنگانہ، کرناٹک اور مغربی بنگال کی طرف سے سخت مخالفت ہورہی ہے۔ تقریباً تمام اپویشن پارٹیوں نیز بی جے پی کی حلیف تمل ناڈو کی انا ڈی ایم کے اور پی ایم کے پارٹی نے بھی اسے تجویز کو رد کر دیا ہے۔

تنازعے کی وجہ
مودی حکومت نے گذشتہ ہفتہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ جاری کیا تھا۔ جس کے مطابق غیر ہندی علاقوں میں درجہ ششم سے طلبہ کے لئے اس ریاست کی علاقائی زبان اور انگلش کے علاوہ ہندی سیکھنا لازمی قرا ر دیا گیا تھا۔ تمل ناڈو ہندی زبان کو پڑھانے کی کوششوں کی مسلسل مخالفت کرتا رہا ہے۔ سن 1965 میں جب ہندی کو ملک کی واحد سرکاری زبان بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی تب سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے تمل ناڈو میں ہوئے تھے۔ ان مظاہروں میں غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اپوزیشن کا احتجاج
تمل ناڈو کی اپوزیشن جماعت ڈی ایم کے نے ہندی نافذ کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ ڈی ایم کے راجیہ سبھا کے رکن تروچی سیوا نے نئی دہلی حکومت کو شدید مظاہروں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”وفاقی حکومت آگے سے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے‘‘۔ جنوبی بھارت کی فلموں کے مشہور اداکار کمل ہاسن نے ٹوئٹ کرکے کہا”میری رائے میں ہندی زبان کسی پر بھی مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری ڈی راجہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”مودی حکومت سہ لسانی فارمولہ کے نام پر ہندی کو نافذ کرنے کی ناپاک کوشش کررہی ہے۔

کئی بھارتی ریاستیں مختلف زبانوں کے حوالے سے احتجلجی تحریک رکھتی ہیںتصویر: DW/P. Samanta


حکومت کی وضاحت
ہنگامہ تیز ہوتا دیکھ نریندر مودی حکومت نے ایک طرف جہاں معاملے کو سرد کرنے کے لئے جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے وزرا وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن کو میدان میں اتارا۔ جنہوں نے ٹوئٹ کرکے لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس مسودے پر عمل درآمد سے پہلے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ انسانی وسائل کے فروغ کے وزیر رمیش پوکھریال نے ٹوئٹ کرکے کہا ''حکومت کا کسی پر کوئی زبان تھوپنے کا ارادہ نہیں ہے اور مام بھارتی زبانوں کی ترقی کے لئے کام کررہے ہیں۔“

مودی حکومت کے ہندی مسلط کرنے کی مخالفت مشرقی بنگال میں بھی کی جا رہی ہےتصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar/K. Frayer

مودی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا ترمیم شدہ مسودہ بھی جاری کیا جس میں ہندی کو اختیاری زبان کے طورپر رکھا گیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلبہ کو اپنی منتخب زبان پڑھانے والا ٹیچر دستیاب نہیں ہوتا۔ جس کی سب سے واضح اور افسوس ناک مثال اترپردیش ہے۔ جہاں اردو کو یوں تو دوسری حکومتی زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن حکومتی اسکولوں میں اردو کا نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔

زبان،ایک حساس مسئلہ
بھارت میں زبان کا مسئلہ نہایت حساس مسئلہ ہے۔ یہاں زبانیں بھی سیاست میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ ماضی میں بھی حکومتیں ہندی کو قومی زبان بنانے کی متعدد کوششیں کرچکی ہیں، لیکن تمام کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ہندی راشٹربھاشا(قومی زبان) کی جگہ راجیہ بھاشا(حکومتی زبان)ہے۔ ہندی کے ساتھ ساتھ دیگر بائیس زبانیں بھی بھارت کی سرکاری زبانیں ہیں۔

’مودی سرکار نے بہت کام کیا ہے، آگے بھی ان سے امیدیں ہیں‘

03:23

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں