بھارت: نئے اراضی قوانین کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج
جاوید اختر، نئی دہلی
28 اکتوبر 2020
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں ترمیم کے بعد اب کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ کشمیریوں کے مطابق مودی حکومت کا یہ حکم نامہ'دھوکا دہی، غیر آئینی اور ناقابل قبول‘ ہے۔
اشتہار
بھارتی وزارت داخلہ نے منگل کے روز ایک اہم پیش رفت میں جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کرتے ہوئے اب کسی بھی بھارتی شہری کو مرکز کے زیر انتظام اس علاقے میں اراضی خریدنے کا حق دے دیا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
کشمیری شناخت کا خاتمہ
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی اراضی کو اس طرح سے فروخت کے لیے رکھنا اُن آئینی یقین دہانیوں اور معاہدوں سے انحراف ہے، جو جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان رشتوں کی بنیاد ہیں۔ یہ اقدامات اُس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں، جن کا مقصد کشمیر کی شناخت، انفرادیت اور اجتماعیت کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں اور ان کو حاصل آئینی ضمانتوں سے انحراف کر کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی جموں و کشمیر سے زیادہ بھارت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ”یہ سارے اقدامات تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت کیے جا رہے ہیں، جو جمہوری اور آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا تھا اور ایسے اقدامات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نئی دہلی کو جموں وکشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کو صرف یہاں کی زمین سے مطلب ہے۔"
’مذموم کوشش‘
پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کو ایک مذموم کوشش قرار دیا۔ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا،”زمینوں سے متعلق جاری نوٹیفکیشن بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے اختیارات ختم کرنے، جمہوری حقوق سے محروم رکھنے اور وسائل پر قبضہ کرنے کے سلسلے کی ایک اور مذموم کوشش ہے۔ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور وسائل کی لوٹ مار کے بعد اب زمینوں کی کھلے عام فروخت کے لیے راہ ہموار کر دی گئی ہے۔"
اشتہار
تحفظات
بی جے پی سے بظاہر قربت رکھنے والی 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘ کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے بھی مودی حکومت کے فیصلے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تحفظات بھارت کی اعلی قیادت کے سامنے پیش کریں گے۔
الطاف بخاری نے ایک بیان میں کہا،”لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے آئینی حقوق بہت پہلے چھین لیے گئے تھے اور جو کچھ بچا تھا وہ بھی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی کے ساتھ پانچ اگست 2019 کو چھین لیا گیا۔ لیکن ہماری پارٹی جموں و کشمیر کے شہریو ں کے حقوق کی لڑائی جاری رکھے گی اور ان کے مفادات کے خلاف ہر اقدام کی مزاحمت کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ اس نوعیت کے اہم قوانین کو چھوڑ دیا جاتا یا جموں وکشمیر کی منتخب حکومت کے ساتھ مشاورت سے ان پر کوئی فیصلہ لیاجاتا۔"
کشمیر میں کیا کچھ بدل گیا؟
08:00
’دن دہاڑے ڈاکہ‘
اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے اتحاد'گپکار عوامی اتحاد‘ کے ترجمان سجاد غنی لون نے جموں کشمیر اراضی قوانین میں ترمیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جموں کشمیر اور لداخ کے پشتینی باشندوں کو، جو حق دیا گیا تھا، اسے ختم کر کے غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے کا امتیازی حق غیر ریاستیوں کو دیاگیا ہے۔ انہو ں نے حکومت کے فیصلے کو دھوکا اور مکمل طور پر غیرآئینی قرار دیا۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) کے سینئر رہنما اور سابق ممبر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے ایک ٹویٹ میں کہا،”یہ جموں وکشمیرکے لوگوں کو مزید بے اختیارکرنے کی کڑی ہے اور یہ سلامتی، ترقی اور قومی یکجہتی کے نام پر دن دہاڑے ڈاکہ ہے۔"
کانگریس پارٹی نے اراضی قوانین میں ترامیم کو بی جے پی حکومت کی یقین دہانیو ں کے خلاف قرار دیا۔ کانگریس کے ریاستی ترجمان رویندر شرما کا کہنا تھا،”لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے باوجود ان کو زمین اور ملازمت کے حق پر تحفظ حاصل ہو گا۔"
بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے رہنما اور سابق رکن پارلیمان سیتا رام یچوری کا کہنا تھا،”یہ ڈاکہ زنی ہے۔ جموں وکشمیرکے وسائل اور وہاں کے خوب صورت دھرتی کی لوٹ ہے۔ تمام جمہوری ڈھانچوں کی تباہی کے بعد کیا اگلا قدم جبری طور لوگوں کی اراضی کو حاصل کر کے اپنے یار دوستوں کو دینا ہے؟ تاکہ حکمراں جماعت کی جیبیں بھری رہیں؟اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"
کیا ہے نئی ترمیم؟
نئی دہلی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس دفعہ 370 کی تنسیخ اور دفعہ35 اے ختم کرنے سے قبل بھارت کی دوسری ریاستوں میں رہائش پذیر شہریوں کو جموں وکشمیر میں اراضی اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی تھی اور صرف ”پشتینی باشندے" ہی ریاست میں اراضی خریدنے کے حق دار تھے۔ تاہم نئی ترامیم سے غیر رہائشی شہریوں کو مرکزی زیر انتظام علاقے میں اراضی خریدنے کا راستہ فراہم ہو گیا ہے۔
نئی ترامیم میں اگرچہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا، تاہم قانون میں اس بات کی بھی چھوٹ رکھی گئی ہے کہ زرعی اراضی پر تعلیمی ادارے اور طبی سہولیات کے لیے ڈھانچے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔
ترامیم کے مطابق زمین کے مالک کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ کسی غیر کاشت کار کو اراضی فروخت کرنے کے علاوہ اس کا تبادلہ بھی کر سکتا ہے یا اس کو یہ اراضی تحفہ میں دے سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص مذکورہ اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا تھاکہ”ہم چاہتے ہیں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی صنعتیں قائم ہوں تاکہ یہاں ترقی ہو اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملنا یقینی بن جائے۔"
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔