’بھارت نازيوں سے متاثرہ فاشسٹ رياست ہے،‘ عمران خان
31 اکتوبر 2020پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے 'ڈئر اشپيگل‘ کے ساتھ اپنے انٹرويو ميں افغان امن عمل، بھارت کے ساتھ کشيدگی، کورونا وائرس کی وبا، يمنی تنازعے، امريکی صدارتی انتخابات اور ديگر کئی علاقائی اور عالمی امور پر گفتگو کی۔ يہ انٹرويو اسی ہفتے کيا گيا اور اس جرمن ہفت روزہ جريدے نے اسے ہفتہ اکتيس اکتوبر کو اپنی ويب سائٹ پر شائع کيا۔
بھارت کے ساتھ کشيدگی اور مسئلہ کشمير
عمران خان کے بقول وہ کشمير کے معاملے پر امريکا سے اسی طرح کی عزت، احترام اور مقام کی توقع رکھتے ہيں، جو کہ بھارت کو حاصل ہے۔ پاکستانی وزير اعظم نے واضح کيا کہ امريکا کو دونوں ممالک کے ساتھ برتاؤ ميں برابری کا خيال رکھنا ہو گا۔ اس جرمن جريدے سے بات جيت ميں خان نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ايشيا ميں کافی کشيدگی پائی جاتی ہے اور حالات کسی بھی وقت بگڑ سکتے ہيں۔ عمران خان نے مزيد کہا، ''يہی وجہ ہے کہ ہم دنيا کے سب سے بااثر ملک امريکا سے توقع کرتے ہيں کہ وہ اس تنازعے کے حل کے ليے دونوں ممالک کو برابر تصور کرے، خواہ صدر کوئی بھی منتخب ہو۔‘‘
عمران خان نے ايک سوال کے جواب ميں کہا کہ واشنگٹن انتظاميہ کا خيال ہے کہ بھارت چين کو قابو ميں کر سکے گا، جو کہ ايک غلط تاثر ہے۔ خان نے نئی دہلی حکومت پر براہ راست تنقيد کرتے ہوئے کہا، ''بھارت اپنے پڑوسی ممالک بشمول چين، بنگلہ ديش سری لنکا اور پاکستان کے ليے خطرہ ہے۔ وہاں ايک انتہا پسند اور نسل پرست جماعت اقتدار ميں ہے۔ وہ ايک فاشسٹ رياست ہے، جو سن 1920 اور 1930ء کی دہائيوں کے نازيوں سے متاثر ہے۔‘‘
امريکا ميں نائن الیون حملوں سے لاتعلقی
جرمن جريدے 'ڈئر اشپيگل‘ کی ایک خاتون رپورٹر کو انٹرويو ديتے ہوئے عمران خان نے امريکا ميں ستمبر سن 2001 ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے ايک مرتبہ پھر پاکستان کی لاتعلقی کا اظہار کيا۔ ان کے مطابق، ''دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ افغانستان ميں سرگرم تھا۔ ستمبر سن 2001 ميں ہونے والے حملوں کے بعد ہميں اپنی فوج کو اس مسلح تنازعے ميں ملوث ہونے کی اجازت نہيں دينا چاہيے تھی۔ ميں شروع ہی سے اس کے حلاف تھا مگر امريکا نے ہم پر دباؤ ڈالا اور اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرويز مشرف اس دباؤ ميں آ گئے۔‘‘
اس انٹرويو کے دوران خاتون رپورٹر کی جانب سے جب اس بات کا حوالہ دیا گیا کہ صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی افغانستان ميں طالبان حکومت کو تسليم کرنے والے تين ممالک تھے، تو عمران خان نے جواب ديا، ''مت بھوليے کہ سن 1980 کی دہائی ميں اسامہ بن لادن ہيرو تھے۔ انہوں نے افغانستان ميں سوويت افواج کے خلاف مجاہدين کا ساتھ ديا اور اس ميں انہيں امريکی سی آئی اے اور پاکستان، دونوں ہی کی حمايت حاصل تھی۔‘‘
پاکستانی وزير اعظم نے مزيد کہا کہ پاکستان طالبان کو امريکا کے ساتھ جاری امن عمل ميں شرکت پر اس ليے راضی کر پايا کيونکہ پاکستان ميں ستائيس لاکھ افغان مہاجرين موجود ہيں، جن کی وجہ سے انتظاميہ دباؤ ڈال سکتی ہے۔ پاکستان تحريک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان ميں دیرپا قیام امن کا خواہش مند ہے۔
آزادی اظہار رائے سے متعلق متنازعہ قوانين کا دفاع
اس انٹرويو ميں پاکستانی وزير اعظم نے ملکی فوج پر تنقيد کی ممانعت کے حوالے سے زير بحث نئے بل کا دفاع بھی کيا۔ انہوں نے کہا، ''پاکستان ميں شايد کسی بھی مغربی ملک سے زيادہ آزادی اظہار رائے ہے۔‘‘ ڈئر اشپيگل کی صحافی نے سوال اٹھايا کہ نئے قانون کی منظوری کی ممکنہ صورت ميں صحافيوں کے ليے پاکستانی فوج کے بارے ميں رپورٹنگ ناممکن ہو جائے گی، جس پر عمران خان نے کہا کہ سکيورٹی فورسز سے متعلق معاملات ديکھنے کا ايک متبادل راستہ دستياب ہو گا، حکومت کے ذريعے۔
اپنے انٹرويو ميں عمران خان نے پاکستان کے ہمسایہ اور بہت قريبی اتحادی ملک چين کی تعريف کے پل بھی باندھے۔ غربت ميں کمی کے حوالے سے عمران خان نے چينی ماڈل کو سراہا اور خواہش ظاہر کی کہ پاکستان ميں بھی اسی طرز کی حکمت عملی اپنائی جانا چاہیے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران پاکستان میں مقابلتاً کم شرح اموات کے بارے ميں پوچھے گئے ايک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ايسا اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بدولت ممکن ہوا۔ اس انٹرويو میں پاکستانی وزير اعظم نے يمن کے مسلح تنازعے پر بھی گہری تشويش کا اظہار کيا۔
ع س / م م (ڈئر اشپيگل، مقامی ميڈيا)