1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نتیش کمار نے ساتویں مرتبہ بہار کے وزیراعلی کا حلف لیا

جاوید اختر، نئی دہلی
16 نومبر 2020

بھارتی صوبے بہار میں نتیش کمار نے قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے) کے رہنما کے طورپرآج وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لیا۔ آئندہ ملکی سیاست پر اس نئی پیش رفت کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

Indien Bihar Wahlkampf Valmeki Nagar und  Nitish Kumar
تصویر: IANS

 سیکولرازم کا دعوی کرنے والی جنتا دل یونائٹیڈ کے رہنما نتیش کمار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی پی) کی مدد سے ریاست بہار میں ایک بار پھر وزیر اعلی کے عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ یہ مسلسل چوتھی مرتبہ ہے جب انہو ں نے سیاسی اہمیت کی حامل اس ریاست کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ البتہ وہ مجموعی طور پر ساتویں مرتبہ اس مشرقی بھارتی ریاست کے وزیر اعلی بنے ہیں۔

نتیش کمار کے ساتھ بی جے پی کے دو رہنماوں تارا کیشور پرساد اور رینو دیوی نے نائب وزرائے اعلی کے عہدے کا حلف لیا۔ مجموعی طور پر چودہ وزراء نے آج پیر کو اپنے عہدوں اور رازداری کے حلف اٹھائے۔ اس موقع پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے علاوہ دیگر اہم رہنما بھی موجود تھے۔ سابق نائب وزیر اعلی اور بی جے پی کے سینئر رہنما سشیل کمار مودی تقریب میں موجود نہیں تھے جبکہ اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل نے اس کا بائیکاٹ کیا۔

بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی

سیاسی تجزیہ کار اور صحافی سمیع احمد نے بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاص بات یہ ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں جنتا دل یونائٹیڈ کو بی جے پی سے کم سیٹیں ملنے کے باوجود نتیش کمار کو وزیر اعلی بنایا جارہا ہے۔ سمیع احمد کا کہنا تھا 'بی جے پی ایسا کر کے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتی ہے۔ چونکہ اس نے شروع میں ہی نتیش کمار کو وزیر اعلی کے امیدوار کے طورپر پیش کیا تھا اس لیے خود زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود بھی نتیش کمار کو ہی وزیر اعلی بنایا۔"

بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں بند راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو کی جماعت 75سیٹیں حاصل کر کے 243 رکنی اسمبلی میں گوکہ سب سے بڑی واحد جماعت کے طورپر ابھری لیکن ان کی قیادت والا مہاگٹھ بندھن (عظیم اتحاد) صرف 110سیٹیں حاصل کرسکا۔

دوسری طرف بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کو 125سیٹوں پر کامیابی ملی۔ بی جے پی 2015 کے مقابلے ا س سال 21 زیادہ سیٹوں کے ساتھ 74 اور جنتا دل یونائٹیڈ 28 سیٹوں کے نقصان کے ساتھ 43 سیٹیں حاصل کرپائی۔ لیکن بی جے پی نے سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتیش کمار کو وزیر اعلی کے عہدے پر برقرار رکھا۔

بائی سائیکل کی جگہ اب ٹرائی سائیکل حکومت

سمیع احمد کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت میں بی جے پی کے سشیل مودی نائب وزیر اعلی تھے۔ ان کی اور نتیش کمارمیں کافی اچھی تال میل تھی۔

 لیکن ہندو قوم پرست جماعتوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے قریبی تعلق رکھنے والے تار کیشور پرساد اور رینو دیوی کو نائب وزیر اعلی بنا کر بی جے پی نے نتیش کمار کو ایک طرح سے 'اپنی سخت گرفت میں‘ لے لیا ہے۔ چونکہ نتیش کمار نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہے اس لیے بی جے پی نے اپنے دو رہنماوں کو نائب وزیر اعلی بنا کر2025  میں اقتدار پر قبضے کے لیے ابھی سے راستہ ہموار کرلیا ہے۔

سمیع احمد کا کہنا تھا کہ”پہلے بہار کی حکومت کو 'دو پہیوں والی حکومت‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ تین پہیوں والی حکومت بن گئی ہے۔ ظاہر ہے  بائی سائیکل اور ٹرائی سائیکل میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق سابقہ اور نئی حکومت میں ہوگا۔اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو دونوں سواروں کی مرضی کے مطابق ڈرائیونگ کرنی ہوگی۔

اس دوران سشیل کمار مودی نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا کہ گوکہ انہیں وزارت نہیں دی گئی ہے لیکن وہ آر ایس ایس کے ایک وفادار کارکن کے طور پر کام کرتے رہیں گے اور یہ ذمہ داری ان سے کوئی چھین نہیں سکتا۔

بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی

02:43

This browser does not support the video element.

اسد الدین اویسی کا دھماکہ

اس مرتبہ کے بہا راسمبلی انتخابات کے نتائج نے سب سے زیادہ ہلچل اسد الدین اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کی کامیابی نے مچائی۔

نیپال اور مغربی بنگال کی سرحد سے ملحق 'سیمانچل‘ کے نام سے مشہور اس مسلم اکثریتی خطے میں اویسی نے 20 امیدوار میدان میں اتارے تھے جن میں سے پانچ کامیاب رہے۔اس پیش رفت پر اویسی اور ان کی جماعت کی تعریف اور تنقید، دونوں، کا سلسلہ شرو ع ہوگیا۔ان پر 'عظیم اتحاد‘ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا، حالانکہ اویسی نے 'مہاگٹھ بندھن‘ سے اتحاد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے انہیں نظر انداز کردیا تھا۔انہیں بی جے پی کی 'بی ٹیم‘بھی کہا گیا۔

دوسری طرف اویسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں کسی بھی سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہے اور اگر اویسی کی جماعت کے الیکشن میں حصہ لینے سے 'سیکولر‘ جماعتوں کو نقصان ہواہے تو انہیں خود اس کا احتساب کرنا چاہیے کیوں کہ بھارت میں سیکولر ازم کو بچانے کی ذمہ داری صرف کسی مسلمان یا تنہا اویسی پرنہیں ہے۔

صحافی سمیع احمد کا کہنا تھا کہ 'جو لوگ اسدالدین اویسی کو 'ووٹ کٹوا‘ کہہ کر ان کی نکتہ چینی کررہے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اویسی کی پارٹی کے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔"  واضح رہے کہ 'ووٹ کٹوا‘ کی اصطلاح لالو پرساد یادو نے دی تھی۔ اس کامطلب ایسی جماعت سے ہے جو خود تو کامیاب نہیں ہوپاتی لیکن دوسروں کی کامیابی میں رخنہ ڈال دیتی ہے۔‘

ڈھاکا میں مودی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

01:14

This browser does not support the video element.

مسلمان، سیاست کے بارہواں کھلاڑی

معروف دانشور پروفیسر اختر الواسع نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا اسے المیہ کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ”اگر کوئی مسلم لیڈر اور جماعت اپنے تشخص کے ساتھ ایک سیکولر جمہوری نظام کی پہچان بنائے، آگے آئے تو وہ فرقہ پرست اور بی جے پی کا ایجنٹ ہوجاتا ہے۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ مسلمان صرف ووٹ دیں لیکن انتخابی سیاست میں عملی حصہ نہ لیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو سیاست کا بارہوا ں کھلاڑی بنائے رکھنا چاہتی ہیں، جو ٹیم میں تو شامل ہو لیکن کھیل میں شریک نہ ہو۔ یہ کھیل اب زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے۔"

مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی، جودھ پور کے وائس چانسلر  پروفیسر اختر الواسع کا کہنا تھا”مسلم کش فسادات میں کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگی رہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک فرقہ وارانہ منافرت کا کھلا مظاہرہ کرتی ہے تو دوسری مکر و منافقت کے ساتھ۔"

 پروفیسر اخترالواسع کا خیال ہے کہ 'بھارتی مسلمانوں کو اپنے مذہبی تشخص، سیاسی وجود، لسانی پہچان  اور سب سے بڑھ کر جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی سیاسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ تعلیم اور روزگار ان کا بھی بنیادی حق ہے جس سے انہیں زیادہ دیر تک محروم نہیں رکھا جاسکتا۔"

کانگریس پھر ناکام

ملک کی قدیم ترین سیکولر اور اقتدار پر سب سے زیادہ عرصے تک فائز رہنے والی کانگریس پارٹی اس مرتبہ بھی ناکام رہی۔ اسے صرف 19سیٹیں ملیں، جو 2015 کے مقابلے 8 کم ہیں۔

کانگریس کی اس خراب کارکردگی کی وجہ سے خود پارٹی کے اندر گھمسان مچا ہوا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو روایتی طورپر کانگریس کا ووٹر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس نے آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا استعمال صرف اپنا الّو سیدھا کرنے کے لیے کیا۔

’عمران خان کو بھارتی مسلمانوں کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں‘

05:46

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں