بھارت نے اچھے روابط کی خواہش کا جواب نہیں دیا، نواز شریف
29 اپریل 2015آج بدھ 29 اپریل کے روز اسلام آباد سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں جب نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ حریف ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں بہتری ان کی اہم سیاسی ترجیح ہو گی۔ اس پر یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ پاکستان میں نئی سویلین حکومت بالآخر فوج سے ملکی خارجہ پالیسی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لے گی اور جنوبی ایشیا کی ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین روابط بہتر ہو سکیں گے۔
روئٹرز کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مسلح دستوں کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے میں ہونے والی گزشتہ جھڑپوں میں کم از کم ایک درجن افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ سفارت کاروں نے گزشتہ مہینے اسلام آباد میں ملاقاتیں تو کی تھیں لیکن اس کے بعد سے باہمی تعلقات میں بہتری کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے سعودی عرب کے ایک دورے کے دوران اخبار ’سعودی گزٹ‘ کو ایک انٹرویو بھی دیا، جس کی تفصیلات آج بدھ کے روز پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اس انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے، ’’بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں کے سے بہتر تعلقات سے متعلق ہماری خواہش کا بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘
اس تناظر میں کہ 1947ء سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے خلاف تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور دونوں کے درمیان کشمیر کا مسلم اکثریتی آبادی والا خطہ بھی ابھی تک متنازعہ ہے، پاکستان سربراہ حکومت نے سعودی اخبار کو دیے گئے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ جب انہوں نے گزشتہ برس مئی میں نئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کی تھی تو یہ ’ایک غیر معمولی فیصلہ‘ تھا۔ لیکن پھر چند ہی ماہ بعد بھارت نے اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ اس وقت منقطع کر دیا جب نئی دہلی میں پاکستانی سفیر نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سربراہ حکومت نے سعودی اخبار کے ساتھ انٹرویو میں کہا، ’’یہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا، جسے بنیاد بنایا گیا۔ اس بات کے ابھی تک کوئی آثار نہیں کہ بھارت ہمارے ساتھ مکالمت کی بحالی کا خواہش مند ہے۔‘‘ نواز شریف کے بقول، ’’پاکستان بھارت کے ساتھ تمام معاملات کے مذاکراتی حل کی خاطر تعمیری بات چیت پر تیار ہے، جموں اور کشمیر کے مسئلے سمیت۔‘‘
اس موضوع پر اپنے تفصیلی جائزے میں روئٹرز نے لکھا ہے کہ نواز شریف نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا جو ارادہ کیا تھا، اسے ماضی قریب میں پاکستانی حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کی وجہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ برس جب پاکستانی فوج نے نواز شریف حکومت کے خلاف وسیع تر عوامی مظاہروں کو ’ٹھنڈا‘ کرنے میں مدد دی، تب سے یہ کشیدگی بہت حد تک ختم ہو چکی ہے۔
روئٹرز کے مطابق تب پاکستانی حکومت کے اندرونی حلقوں کے بہت قریبی عناصر نے کہا تھا کہ نواز شریف اقتدار میں تو رہیں گے لیکن انہیں سلامتی امور اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں ملکی فوج کو ’ساتھ لے کر چلنے‘ کا فیصلہ کرنا پڑا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ اسی مہینے بھارت کی طرف سے اس وقت شدید برہمی کا اظہار کیا گیا، جب 2008ء میں ممبئی میں کیے گئے دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمان لکھوی کو ایک پاکستانی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ اس پر بھارت نے کہا تھا کہ لکھوی کا رہا کیا جانا نئی دہلی کے نزدیک اس بات کا مظہر ہے کہ ’اسلام آباد دہشت گردوں سے نمٹنے کی پالیسی میں دوہرا نقطہ نظر‘ اپنائے ہوئے ہے۔