بھارت نے دولتِ اسلامیہ پر پابندی لگا دی
16 دسمبر 2014بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے منگل کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت مشرقِ وسطیٰ کے اس گروہ کی سرگرمیوں کو محدود بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم نے دیگر ملکوں میں داعش کی سرگرمیوں پر غور کیا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ہم نے اس گروہ پر بھارت میں پابندی لگا دی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’یہ سچ ہے کہ اس گروہ میں شامل یا اس کی کارروائیوں کا حصہ بننے والے بھارتی شہریوں کی تعداد انتہائی کم ہے، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس گروہ پر پابندی سے پولیس کے لیے مشتبہ افراد پر مقدمے قائم کرنا آسان ہو جائے گا۔
عراق میں تعمیرات کے شعبے میں کام کرے والے بھارت کے انتالیس مزدُور لاپتہ ہیں۔ شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ انہیں اسلامک اسٹیٹ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان شہریوں کے تحفظ کے خدشے کے تحت بھی بھارتی حکام اس گروہ پر پابندی لگانے سے اجتناب برتتے رہے ہیں۔ بھارتی حکام کا یہ خیال بھی رہا ہے کہ اس گروہ پر پابندی لگا دی گئی تو اس کے لیے ہمدردی رکھنے والوں کا پتہ لگانا مشکل ہو جائے گا اور اپنی سرگرمیاں خفیہ انداز میں جاری رکھیں گے۔
خیال رہے کہ بھارت مسلمانوں کی آبادی والا تیسرا بڑا ملک ہے، لیکن وہاں کے مسلمانوں نے اسلام پسندی کے مقاصد کی کبھی زیادہ حمایت نہیں کی۔ پولیس کے مطابق چار مسلمان شہریوں کے بارے میں اسلامک اسٹیٹ کا حصہ بننے کی معلومات ہیں جن میں سے ایک واپس وطن لوٹا اور اب حراست میں ہے۔
ابھی ویک اینڈ پر ہی بھارت کے شہر بنگلور کی پولیس نے چوبیس سالہ مہدی مسرور بِسواس کو بھی گرفتار کیا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ وہ ٹوئٹر کا اکاؤنٹ @ShamiWitness چلا رہا تھا۔ اس اکاؤنٹ کو سترہ ہزار سے زائد افراد فالو کر رہے تھے جن میں سے عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے لیے لڑنے والے غیر ملکی بھی شامل تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اکاؤنٹ سے جہادیوں کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے والوں کے لیے معلومات بھی دی جا رہی تھیں جبکہ مارے جانے والے فائٹروں کو شہید قرار دیا جا رہا تھا۔
بنگلور کی پولیس نے ہفتے کو بسواس کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر دستاویزات ثبوت کے طور پر قبضے میں لے لی گئیں۔