روسی دفاعی پیداوار کے ادارے کے سربراہ سرگئی کیمیزوف کے مطابق بھارت نے روسی ایس 400 دفاعی میزائل نظام خریدنے کے لیے آٹھ سو ملین ڈالر کی پیشگی ادائیگی کردی ہے۔
اشتہار
اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت نے روس کے ساتھ یہ سودا امریکی خواہشات کے برخلاف کیا۔
پچھلے ہفتے جمعرات کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے برازیل میں برکس ممالک کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔
بعد میں صدر پوٹن کا کہنا تھا، ''جہاں تک ایس چار سو کی فراہمی کا تعلق ہے تو سب کچھ منصوبے کے مطابق جاری ہے۔ ہمارے بھارتی ساتھیوں نے جلد فراہمی کی کوئی بات نہیں کی اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔‘‘
بھارت نے روسی دفاعی میزائل کی خریداری کا معاہدہ گزشتہ برس کیا تھا۔ جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم ایس چار سو خریدنے کے لیے بھارت روس کو مجموعی طور پر پانچ بلین ڈالر ادا کرے گا۔
اس معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ امریکا نے بھارت کو خبردار کیا کہ روسی دفاعی نظام خریدنے کی صورت میں اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تاہم بھارت کا موقف تھا کہ ملکی دفاعی نظام مضبوط بنانے اور خاص طور پر چین سے لاحق خطروں سے نمٹنے کے لیے مودی حکومت بہرصورت یہ نظام خریدے گی۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ستمبر کے مہینے میں واشنگٹن میں اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے دوران بھی بھارتی فیصلے کا دفاع کیا تھا۔
تب مائیک پومپیو سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جے شنکر کا کہنا تھا، ''ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ملک ہمیں بتائے کہ روس سے کیا خریدیں یا کیا نہیں، بالکل ایسے ہی ہم یہ بھی نہیں پسند کریں گے کہ کوئی اور ملک ہمیں بتائے کہ ہم امریکا سے کیا خریدیں۔‘‘
صدر پوٹن 'بھارت کے دوست‘
ستمبر کے مہینے میں وزیر اعظم مودی نے روس کی سالانہ اقتصادی سمٹ میں شرکت کی اور صدر پوٹن کو بھارت کا 'قریبی دوست‘ قرار دیا۔ اجلاس کے دوران دونوں ممالک نے دفاعی انڈسٹری سمیت دیگر شعبوں میں بھی کئی مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
روس اور بھارت کے درمیان پچھلے سال دفاع اور دیگر شعبوں میں 11 بلین ڈالر سے زائد کی تجارت رہی تھی۔
بھارت دنیا بھر میں روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ سن 2015 میں مودی حکومت نے 'میک اِن انڈیا‘ منصوبے کے تحت روس کے ساتھ مل کر بھارت میں ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق معاہدے کیا تھا تاہم ابھی تک اس منصوبے پر مکمل عمل نہیں ہو پایا۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔