1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے سارک سمٹ میں شرکت کی پاکستانی تجویز مسترد کر دی

جاوید اختر، نئی دہلی
7 جنوری 2022

بھارت نے پاکستانی وزیر خارجہ کی طرف سے اسلام آباد میں سارک سمٹ میں شرکت کی تجویز مسترد کر دی۔نئی دہلی کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں کٹھمنڈو میں آخری سارک سمٹ کے بعد سے "حالات کی نوعیت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔"

Logo SAARC  South Asian Association for Regional Cooperation
تصویر: imago/Xinhua

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے معمول کی پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہم نے سارک سمٹ کے حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیانات میڈیا میں دیکھے ہیں۔آپ اس پس منظر سے بخوبی واقف ہیں کہ سن 2014 کے بعد سے سارک سمٹ کیوں نہیں منعقد ہو سکی۔"

اریندم باگچی کا کہنا تھا،"اس (سن 2014)کے بعد سے حالات کی نوعیت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس لیے سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں اب تک کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔"

'بھارت سارک کو بے وقعت نہ کرے'

خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ دنوں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اسلام آباد جنوب ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کے لیے تیار ہے اور اگر بھارت کو اس میں براہ راست شرکت میں کوئی مسئلہ ہے تو وہ ورچوئلی شریک ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سارک کے تمام رکن ملکوں کو اسلام آباد میں 19 ویں سمٹ میں شرکت کے ایک لیے ایک بار پھر مدعو کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا،"سارک پاکستان کی نظر میں علاقائی تعاون، علاقائی اقتصادی سرگرمیوں اور علاقائی تجارت کے لیے ایک اہم فورم ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس فورم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر بھارت اسلام آباد نہیں آنا چاہتا ہے تو اب تو  نئے ذرائع موجود ہیں وہ اس میں ورچوئلی شامل ہو سکتا ہے۔‘‘

پاکستانی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا،"اگر بھارت خود نہیں آنا چاہتا تو دوسروں کو تو نہ روکے، دوسروں کو تو آنے دے۔ اس فورم کو بے معنی اور بے وقعت تو نہ کرے۔"

کٹھمنڈو سارک سمٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریفتصویر: Getty Images/AFP/N. Shrestha

بڑا ہونے پر بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے

سفارتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے بھارت پر بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر پروفسر سنتوش شرما پاوڈیل کا کہنا تھا،"بھارت جنوبی ایشیا میں ایک ناقابل رشک پوزیشن میں ہے۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کا محبت اور نفرت کا تعلق ہے۔پڑوسی ملک بھارت کے "بڑے بھائی"والے متکبر رویے کی شکایت کر سکتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ضرورت کے وقت بھارت کی طرف دیکھتے بھی ہیں۔"

 پروفیسر سنتوش شرما کے مطابق "بھارت کے چھوٹے پڑوسی ملک بھارت سے امداد کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ چین سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کے حوالے سے پڑوسی ملکوں کی اسٹریٹیجک خودمختاری کا احترام کرے۔ بالآخر بڑی طاقت کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی آتی ہیں۔"

سارک کی آخری سمٹ کٹھمنڈو میں سن 2014 میں ہوئی تھیتصویر: Getty Images/N. Shrestha

سارک سمٹ کیوں نہیں ہو پارہی؟

سارک آٹھ ممالک بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا پر مشتمل ایک علاقائی بلاک ہے۔ سارک اتفاق رائے کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس کا سربراہی اجلاس عام طور پر ہر دو سال پر منعقد ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک رکن ملک بھی اس میں شرکت سے انکار کر دے تو سمٹ نہیں ہو سکتی۔

سارک کی آخری سمٹ کٹھمنڈو میں سن 2014 میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ بلاک بہت زیادہ موثر نہیں رہ گیا ہے۔

سارک کی 19 ویں سمٹ نومبر 2016 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تھی۔ لیکن جموں و کشمیر کے اڑی میں ایک آرمی کیمپ پر اسی سال 18 ستمبر کو دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھارت نے سارک سمٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔بنگلہ دیش، افغانستان، مالدیپ اور بھوٹان نے بھی بعد میں مختلف اسباب کی بنا پر شرکت کرنے سے انکار کر دیا اور سمٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

گزشتہ برس ستمبر میں نیویارک میں اقو ام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سارک وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پاکستان چاہتا تھا کہ اس اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی طالبان کریں۔ لیکن بھارت کو اس تجویز پر اعتراض تھا۔ سارک کے اراکین کی اکثریت گوکہ اس بات پر متفق تھی کہ افغانستان کی کرسی خالی رکھی جائے لیکن پاکستان نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور اجلاس نہیں ہو سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں