1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت نے مزار شریف سے بھی اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
11 اگست 2021

بھارت نے ایک خصوصی طیارے کی مدد سے شمالی افغان شہر مزار شریف میں موجود اپنے سفارتی اور سکیورٹی  عملے کو نکال لیا ہے۔ حکومت نے افغانستان میں موجود تمام  بھارتی شہریوں کو ملک سے نکل جانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔

Afghanistan Herat | Milizeinheiten nach kämpfen mit taliban
تصویر: Hamed Sarfarazi/AP/picture alliance

ایک ایسے وقت جب طالبان  کی مزار شریف کی جانب پیش قدمی جاری ہے، بھارت نے 10 اگست منگل کی شام کو مزار شریف میں موجود اپنے سفارتی عملے کو ایک خصوصی طیارے کی مدد سے دہلی واپس بلا لیا۔ گزشتہ ماہ بھارت نے قندھار سے اپنے عملے کا انخلا کروا لیا تھا۔

اس سے قبل مزار شریف میں بھارتی قونصل خانے نے اعلان کیا تھا کہ  سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر، ’’جو بھی بھارتی شہری اس علاقے میں موجود ہو، وہ شہر سے نکل جائیں اور 10 اگست کی شام کو ایک خصوصی پرواز کابل سے نئی دہلی کے لیے روانہ ہو رہی ہے اس میں سوار ہونے کے لیے اپنی تفصیلات روانہ کر دیں۔‘‘

مزار شریف افغانستان کے شمال میں سب سے بڑا شہر ہے جو ازبکستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس شہر میں گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کا ایک بڑا سفارتی عملہ موجود رہا ہے۔ گزشتہ ماہ جب جنوبی علاقے قندھار میں لڑائی تیز ہوئی تو بھارت نے سب سے پہلے قندھار کا اپنا قونصل خانہ بند کر نے کا اعلان کیا تھا اور عملے کو واپس بلا لیا گيا تھا۔

لیکن شدید لڑائی کے باوجود شمالی شہر مزار شریف میں اس کا سفارتی اور سکیورٹی کا عملہ اب بھی موجود تھا۔ گزشتہ روز طالبان نے کابل اور مزار شریف کے درمیان واقع اہم شہر ایبک پر قبضہ کر لیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اب وہ مزار شریف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اسی تناظر میں یہ انخلا کیا ہے۔

لیکن کابل میں بھارتی سفارت خانہ اب بھی فعال ہے جس میں بھارتی سفارتی حکام، سکیورٹی فورسز کا عملہ اور سفارت خانے میں کام کرنے والے افغان شہری اب بھی  حسب معمول کام کر رہے ہیں۔ 

تصویر: Kawa Basharat/Xinhua/picture alliance

تمام بھارتی شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کا مشورہ

منگل کے روز ہی کابل میں بھارتی سفارت خانے نے ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں کہا گيا ہے کہ افغانستان کے مختلف حصوں میں تشدد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اس لیے تمام بھارتی شہریوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں۔

اس سے متعلق ایڈوائزری میں کہا گيا، ’’افغانستان آنے والے، یہاں قیام اور کام کرنے والے تمام بھارتی شہریوں کو سختی سے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو افغانستان کے مختلف حصوں سے تجارتی پروازوں کی دستیابی کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھیں اور اس سے پہلے کہ تمام کمرشل فلائٹس کو منسوخ کر دیا جائے وہ بھارت واپسی کے لیے فوری سفری انتظامات کریں۔‘‘

افغانستان میں بھارت کی کئی کمپنیاں اور تنظیمیں کام کرتی ہیں اور حکومت نے ان سے بھی کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ کمرشل پروازیں بند کر دی جائیں وہ اپنے تمام بھارتی ملازمین کو افغانستان سے باہر نکال لیں۔

 بھارتی میڈیا سے بھی کہا گيا کہ اگر کوئی بھارتی صحافی رپورٹنگ کے لیے افغانستان میں ہے تو اسے بھی پہلے بھارتی سفارت خانے کے حکام سے ملاقات کرنی چاہیے اور عملے کے صلاح و مشورہ کے مطابق ہی وہ اپنی نقل و حرکت انجام دیں۔

تصویر: AFP/Getty Images

اس سے قبل سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے روس اور ترکی نے بھی مزار شریف سے اپنے سفارتی عملے کو عارضی طور پر وہاں سے نکال لیا تھا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی افغان شہر مزار شریف میں اپنی سفارتی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی جاری ہے اور جنگجوؤں نے منگل کے روز دو مزید صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ پانچ روز کے دوران طالبان آٹھ صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ جنوب مغربی شہر فراہ اور شمال میں پل خمری اب طالبان کے قبضے میں ہے۔

بدھ کے روز ملنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان نے شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر بھی قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور اگر یہ خبر درست ثابت ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طالبان نے اب تک نو ریاستی دارالحکومتوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

تاہم افغان حکام کا کہنا ہے کہ بدخشاں میں طالبان کے خلاف فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ کمانڈو آپریشن بھی جاری ہے جس میں طالبان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

قندھار :جنگ کے باعث ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں