1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اگنی پتھ‘: بھارتی مسلح افواج میں تقرری کا نیا منصوبہ

جاوید اختر، نئی دہلی
14 جون 2022

بھارت نے مسلح افواج میں تقرری کے ایک 'نئے انقلابی منصوبے' کا اعلان کیا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اسے 'تاریخی قدم' قرار دیا۔ تاہم دفاعی امور کے ماہرین اس فیصلے کی افادیت پر شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

Indien | Parade Tag der Republik
تصویر: Satyajit Shaw/DW

بھارت نے دفاعی افواج میں تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگیوں پر خرچ ہونے والی رقم میں کمی کرنے اور ضروری ہتھیاروں کی حصولیابی کے لیے زیادہ فنڈ دستیاب کرانے کے مقصد سے مسلح افواج میں تقرری کے ایک نئے منصوبے 'اگنی پتھ‘ کا اعلان کیا۔ منگل چودہ جون کی صبح ہی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دی تھی اور اس پر فوری عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

اس منصوبے سے بھارتی فوج میں تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی پر خرچ ہونے والی ایک بڑی رقم کی بچت ہو گی، جو گزشتہ چند برسوں سے بھارتی فوج کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی موجودگی میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی طرف سے 'اگنی پتھ' منصوبے کے اعلان کے موقع پر حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، "دفاعی پالیسی میں یہ ایک اہم اصلاح ہے، یہ فورا ً نافذ العمل ہو گیا ہے۔ اس سے فوج کے تینوں شعبوں میں تقرری ہو گی اور اس اسکیم کے تحت مقرر کیے جانے والے فوجیوں کو 'اگنی ویر' کہا جائے گا۔ خواتین بھی 'اگنی ویر‘ بن سکتی ہیں۔‘‘

'اگنی پتھ' اسکیم کیا ہے؟

بھارتی مسلح افواج میں اس وقت 13 لاکھ سے زیادہ جوان موجود ہیں۔ اگنی پتھ اسکیم کے تحت ہر سال چار برس کی مدت کے لیے 45000 تا 50000 جوانوں کی تقرری کی جائے گی۔ ان میں سے صرف 25 فیصد کو مزید 15 سال کے لیے مستقل کمیشن مل سکے گا۔ یہ تقرری "آل انڈیا، آل کلاس" کی بنیاد پر ہو گی۔ یہ اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ بھارتی آرمی میں ریجمنٹ سسٹم علاقہ اور ذات کی بنیادوں پر ہے۔ نئی اسکیم سے وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بھی شخص مذہب، علاقہ یا مذہبی پس منظر کے بغیر انڈین آرمی کے کسی ریجمنٹ کا حصہ بن سکتا ہے۔

آرمی چیف جنرل منوج پانڈے نے بتایا کہ اگلے 90 دنوں کے اندر اگنی پتھ اسکیم کے تحت تقرریاں شروع ہو جائیں گی۔ نئے 'اگنی ویروں‘ کی عمر ساڑھے 17 برس سے 21 برس کے درمیان ہو گی۔ انہیں ابتدائی تین برسوں میں ماہانہ 30 ہزار روپے اور چوتھے برس 40 ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت تنخواہوں کا 30 فیصد 'سیوا ندھی' پروگرام کے تحت کاٹ لے گی اور اتنی ہی رقم اپنی جانب سے ایک مخصوص فنڈ میں جمع کرائے گی جسے چار سال کی ملازمت کی مدت کے اختتام پر سود سمیت واپس لوٹا دیا جائے گا۔ یہ رقم تقریباً 12لاکھ بنے گی، جس پر ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

دفاعی ماہرین کے تحفظات

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس اسکیم سے نہ صرف ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ملک کی سلامتی بھی مضبوط ہو گی۔ ان کے بقول، "جس طرح بھارت کی آبادی نوجوان ہے اسی طرح مسلح افواج کو بھی نوجوان بنایا جا رہا ہے۔ نوجوان مسلح افواج کو نئی ٹیکنالوجی کی آسانی سے تربیت دی جا سکے گی۔"

دفاعی امور کے متعدد ماہرین نے تاہم اگنی پتھ اسکیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈین آرمی میں ریجمنٹ اور بٹالین کا نظام ہے اور ہر جوان اس کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ لیکن "آل انڈیا، آل کلاس" کی وجہ سے یہ جذبہ برقرار نہیں رہے گا۔

بھارتی آرمی کے سابق نائب سربراہ لیفٹننٹ جنرل ہرونت سنگھ نے سوال کیا کہ کیا چار برس کی مدت میں "وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دینے کا جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے؟" ان کا کہنا تھا، "چونکہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت فوج میں شامل ہونے والوں کو پہلے ہی پتہ ہے کہ انہیں چار برس بعد چلے جانا ہے لہذا ان کے اندر ریجمنٹل اور یونٹ کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کا جوش اور جذبہ پیدا کرنا مشکل ہو گا۔"

سابق نائب آرمی چیف لیفٹننٹ جنرل راج کادیان کے مطابق اس اسکیم کے تحت اتنی کم مدت میں نئے افراد کو سخت تربیت دینا مشکل ہو گا۔ اس سے ایسے لوگوں کا ذاتی مقصد تو پورا ہو سکتا ہے لیکن بطور ادارہ آرمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

سکیورٹی امور سے متعلق ادارہ چلانے والے ریٹائرڈ بریگیڈیئر راہول بھونسلے کا خیال ہے کہ یوکرین میں روسی فوج کی تباہ کن کارکردگی سے یہ پتہ چل گیا ہے کہ جزوی یا ناکافی تربیت حاصل کرنے والے فوجی ایک پرعزم دشمن کے سامنے ٹک نہیں پاتے ہیں۔

 انہوں نے کہا، "روس تو یہ طے کرسکتا ہے کہ اسے کس کے ساتھ جنگ کرنی ہے اور کس کے ساتھ نہیں لیکن بھارت کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسے ایک ایسے پرعزم، حوصلہ مند اور بہترین تربیت یافتہ آرمی کی ضرورت ہے جو سنگلاخ علاقوں میں بھی پاکستان اور چین سے لاحق خطرات کا مقابلہ کر سکے۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں