1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے پاکستانی نژاد انگلش کرکٹر بشیر کا ویزا جاری کردیا

25 جنوری 2024

پاکستانی نژاد برطانوی کرکٹر شعیب بشیر ویزا کے اجراء میں تاخیرکی وجہ سے اب بھارت کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ نہیں کھیل سکیں گے۔ اس واقعے پر انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

شعیب بشیر 25 جنوری کو حیدرآباد میں کھیلے جانے والے پہلے میچ میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے تھے
شعیب بشیر 25 جنوری کو حیدرآباد میں کھیلے جانے والے پہلے میچ میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے تھےتصویر: Harry Trump/Getty Images

شعیب بشیر بھارت اور انگلینڈ کے درمیان پانچ ٹسٹ میچوں کی سریز کے تحت جمعرات 25 جنوری کو حیدرآباد میں کھیلے جانے والے پہلے میچ میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے والے تھے۔ لیکن آف اسپنر بشیر اب وشاکھاپٹنم میں بھارت کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلیں گے۔

انگلینڈ کرکٹ نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ بشیر اس ہفتے کے اواخر تک بھارت کا سفر کرنے اور ٹیم میں شامل ہونے والے ہیں۔ بورڈ نے مزید کہا کہ،"ہمیں خوشی ہے کہ مسئلہ اب حل ہو گیا ہے۔"

شعیب بشیر کو بھی انگلینڈ کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گزشتہ اتوار کو ابوظہبی سے حیدرآباد پہنچنا تھا لیکن انہیں ہوائی اڈے پر ہی روک دیا گیا کیونکہ نئی دہلی نے ان کا ویزا جاری نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے پہلے ٹیسٹ سے قبل ہی بھارت اور انگلینڈ کے درمیان میچ تنازع کا شکار ہو گیا۔

پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر کو بھارتی ویزا دینے سے انکار

انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے ان واقعات کو "انتہائی مایوس کن" قرار دیا جب کہ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی پاکستانی نژاد برطانوی کھلاڑی کے ساتھ "منصفانہ" سلوک کا مطالبہ کیا۔

اسٹوکس نے میچ سے پہلے کی پریس کانفرنس میں کہا کہ جب مجھے ابوظہبی میں پہلی بار خبر ملی تو میں نے کہا تھا کہ جب تک بشیر کو ویزا نہیں مل جاتا ہمیں پرواز نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا،"لیکن میں نے شاید کچھ زیادہ ہی کہہ دیا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ایسا کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ میں نے شاید اپنے جذبات کی وجہ سے ایسا کہا تھا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ''مجھے اس بات سے کافی تکلیف ہوئی کہ بشیر کو اس صورت حال سے گزرنا پڑا۔"

آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کو گزشتہ سال بھارت میں ٹیسٹ سیریز کے دورے کے دوران ویزا ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: Getty Images/M. Hewitt

تنازع کیسے حل ہوا؟

بیس سالہ شعیب بشیر کے پاسپورٹ پر ویزا نہیں لگا ہوا تھا۔ انگلینڈ کی ٹیم کے ویزے بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) نے آن لائن جاری کیے تھے اور اس صورت میں پاسپورٹ پر ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تاہم ائیرلائن کو اس کی ایک نقل فراہم کر دی جاتی ہے۔ لیکن انگلینڈ کی ٹیم اتوار کو جب ابوظہبی ائیرپورٹ پہنچی تو حیدر آباد کی پرواز کے لیے ائیرلائن نے شعیب بشیر کو روک دیا۔ ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں تھا جو ائیرلائن کو جاری کی گئی تھی۔ اگرچہ بی سی سی آئی نے ان کے ویزے کے لیے بھی انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کو مطلع کر دیا تھا لیکن بھارتی امیگریشن نے پاسپورٹ پر ویزے سے مشروط کردیا تھا۔

کرکٹر عبدالرزاق نے ایشوریہ رائے کے بارے میں ایسا کیا کہا کہ معذرت کرنی پڑی

 بین سٹوکس کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کا دسمبر کے وسط میں اعلان کیا جاچکا تھا تو اگر ایسا کوئی مسئلہ تھا تو وقت سے پہلے بتایا جاسکتا تھا۔ انہیں افسوس ہے کیونکہ وہ بشیر کو حیدر آباد میں ٹیم میں کھلانا چاہتے تھے۔

شعیب بشیر فوری طور پر انگلینڈ واپس پہنچے جہاں ای سی بی نے ان کا ویزا درخواست جمع کرا یا، جس کے بعد ان کا ویزا جاری کردیا گیا۔

شعیب بشیر کے ویزا کے اجراء میں تاخیر کے واقعے پر انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے افسوس کا اظہار کیا ہےتصویر: MArtin Keep/AFP

پاکستانی نژاد کھلاڑی پہلے بھی ایسے مسئلے سے دوچار ہو چکے ہیں

شعیب بشیر بھارت کی جانب سے ویزا ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنے والے پہلے پاکستانی نژاد برطانوی کرکٹر نہیں ہیں۔ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔

سابق پاکستانی کرکٹر اور بھارتی صحافی کی سوشل میڈیا پر تکرار

ماضی میں معین علی اور ثاقب محمود کو بھی بھارت کا دورہ کرنے پر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس کے علاوہ آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کو بھی گزشتہ سال بھارت میں ٹیسٹ سیریز کے دورے کے دوران ویزا ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دریں اثنا بھارتی کپتان روہت شرما نے شعیب بشیر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "افسوس کہ میں ویزا آفس میں نہیں بیٹھتا کہ اس بارے میں زیادہ بتا سکوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد یہاں آئیں گے اور ہمارے ملک میں لطف اندوز ہوں گے اور کرکٹ بھی کھیلیں گے۔"

ج ا/ ص ز (خبر رساں ادارے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں