1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے پاکستان جانے والے تین درياؤں کا پانی روک دیا

جاوید اختر، نئی دہلی
11 مارچ 2019

پلوامہ واقعے کے بعد بھارت و پاکستان کے مابین جاری کشیدگی کے تناظر ميں بھارت نے پاکستان کی طرف جانے والے تین درياؤں کا پانی روک دیا ہے۔ سندھ طاس منصوبوں کا جائزہ کے ليے بھارتی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی ملتوی کر دیا گيا ہے۔

Indien Pakistan Kashmir trockener Indus River
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/PPI

نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قدم سے سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ جن تین درياؤں (ستلج، راوی اور بیاس) کا پانی روکا گیا ہے، معاہدے کے تحت بھارت ان کا پانی استعمال کر سکتا ہے۔
بھارت کے آبی وسائل کے جونيئر وفاقی وزیر ارجن رام میگھوال نے پاکستانی سرحد سے ملحق صوبہ راجستھان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس تازہ ترین پيش رفت کی اطلاع دی۔ میگھوال نے بتایا، ’’بھارت نے تین مشرقی درياؤں کے صفر اعشاریہ پانچ تین ملین ایکٹر فٹ پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روک دیا ہے اور اب يہ پانی بھارت میں ذخیرہ کیا جا رہا ہے ۔ جب کبھی راجستھان اور بھارتی پنجاب کو ضرورت ہوگی، تو اس پانی کو پینے اور آب پاشی کے ليے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 14فروری کو پلوامہ حملہ کے بعد، جس میں بھارتی نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے پینتالیس جوان مارے گئے تھے، آبی وسائل کے وفاقی وزیر نیتن گڈکری نے اعلان کیا تھا کہ بھارت نے سندھ آبی معاہدے کے تحت درياؤں میں اپنے حصے کے پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے کے مطابق مغربی درياؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان استعمال کرے گا جب کہ مشرقی ندیوں یعنی ستلج، راوی اور بیاس کا پانی بھارت کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مشرقی درياؤں کے پانی کے تقریباً پینتیس ملین ایکڑ فٹ حصے پر تکنیکی لحاظ سے بھارت کا حق ہے۔ اس میں سے پچانوے فیصد پانی بھارت استعمال کرتا رہا ہے جب کہ صرف پانچ فیصد پانی پچھلے ساٹھ برسوں سے پاکستان کی طرف جا رہا ہے۔
گزشہ ماہ آبی وسائل کے وفاقی وزیر نتن گڈکری نے ٹوئيٹ کر کے کہا تھا، ’’وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہماری حکومت نے اپنے حصے کے پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس پانی کا رخ موڑ دیں گے اور اسے جموں و کشمیر اور بھارتی پنجاب کے لوگوں کو سپلائی کریں گے۔‘‘

اس دوران سندھ طاس منصوبوں کا معائنہ کرنے کے ليے اسی ماہ پاکستان جانے والی اپنی ٹیم کا دورہ ملتوی کر دیا گيا ہے۔ اب یہ دورہ مارچ 2020 تک ہی ممکن ہو سکے گا۔
اس سے قبل پاکستانی ٹیم نے جنوری کے آخری ہفتے میں چناب پر زیر تعمیر منصوبوں کا جائزہ ليا تھا۔ اس وقت پاکستان کے انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شاہ اور بھارتی کمشنر پی کے سکسینا نے اپنے مشیروں کے ساتھ چناب ندی پر بھارت نگرانی ميں زیر تعمیر پاکل ڈل، رتال اور لوور کلانی پن بجلی منصوبوں کا معائنہ کیا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے بگلیہار پن بجلی پروجیکٹ کا بھی دورہ کیا تھا اور بھارتی وفد کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ سندھ آبی معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے کمشنرز ہر پانچ برس میں ایک دوسرے کے درياؤں کا معائنہ کر سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ دونوں ملکوں میں درياؤں پر کس طرح کے ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ موجودہ پانچ سالہ مدت مارچ سن 2020 میں ختم ہو رہی ہے۔
دریں اثناء بھارتی حکام سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور میں کوریڈور کھولنے کے سلسلے میں ضابطوں کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے چودہ مارچ کو اٹاری آنے والے پاکستانی وفد کے خیر مقدم کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کے باوجود عوامی سطح پر رابطے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت میں قوم پرست ہندو تنظیمیں اور بالخصوص حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پاکستان کو نشانہ بنانے کے ليے ایک عرصے سے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ بھارت کو سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کا مشورہ بھی دیتی رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ اگر بھارت اس معاہدے سے الگ ہوتا ہے تو اس کے اس فیصلے کو ’اقدام جنگ‘ تصور کیا جائے گا۔
بھارت ميں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نئی دہلی حکومت نے اس طرح کا کوئی فیصلہ کیا تو اس کے دور رس اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور بھارت کو عالمی برداری کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھارت کے اس طرح کے کسی بھی فیصلے سے اسے اپنے ایک دوسرے پڑوسی چین کی بھی ناراضی مول لینی پڑے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں