1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بھارت نے پاکستان سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی

عاطف بلوچ اے پی، روئٹرز کے ساتھ
3 مئی 2025

بھارت نے پاکستان سے درآمد ہونے والی اور پاکستان کے راستے آنے والی اشیاء پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بھارتی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ یہ پابندی فوری طور پر نافذ العمل ہو گی۔

یہ پابندی قومی سلامتی اور عوامی مفاد کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے
بھارت نے پاکستان سے درآمد ہونے والی اور پاکستان کے راستے آنے والی اشیاء پر پابندی عائد کر دی ہےتصویر: Narinder Nanu/AFP

بھارتی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ نے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک علامیے میں کہا گیا، پاکستان سے درآمد ہونے والی اور پاکستان کے راستے آنے والی اشیاء پر ''یہ پابندی قومی سلامتی اور عوامی مفاد کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 26 سیاح ہلاک ہو گئے تھے۔ اس پیش رفت کے بعد دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے۔ 

مسلمان اکثریتی ہمالیائی خطے کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں ملک ہی دعویٰ رکھتے ہیں اور یہ علاقہ کئی جنگوں، بغاوتوں اور سفارتی کشیدگیوں کا مرکز رہا ہے۔

بھارت نے اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے، جسے اسلام آباد نے مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اُسے ''مصدقہ انٹیلیجنس رپورٹس‘‘ ملی ہیں کہ بھارت فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔

جوابی اقدام کے طور پر پاکستان نے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن میں تمام سرحدی تجارت معطل کرنا، اپنی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند کرنا اور بھارتی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔

پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی، تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔

گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت پہلے ہی کم ہوتی جا رہی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ تلخی کا شکار رہے ہیںتصویر: Saqib Majeed/SOPA Images/Sipa USA

پاکستان کی سفارتی کوششیں

پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف نے جمعہ کے روز خلیجی اتحادی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کیں تاکہ متنازعہ کشمیر کے علاقے میں سیاحوں پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔

سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں شہباز شریف نے انہیں 22 اپریل کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے پر اسلام آباد کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ عالمی برادری نے دونوں ممالک پر تحمل اور کشیدگی میں کمی کی اپیل کی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جمعہ کے روز جاری بیان میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے سعودی عرب سمیت دیگر ''برادر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت پر زور دیں کہ وہ کشیدگی میں کمی کرے اور خطے میں استحکام کو فروغ دے۔‘‘  اس بیان میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف نے پاکستان کے خطے میں امن و استحکام کے عزم کا اعادہ کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزعابی کو بتایا کہ پاکستان کا سیاحوں پر حملے میں کوئی کردار نہیں اور انہوں نے اس واقعے کی ایک قابل اعتماد، شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات میں شامل ہونے کی پیشکش بھی کی۔

سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات میں وزیرِاعظم نے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ جواباً سعودی سفیر نے کہا کہ مملکت خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔

کشمیر میں کشیدگی، پاکستانی فوج کی مشقیں

02:48

This browser does not support the video element.

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ تلخی کا شکار رہے ہیں۔ سن 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں۔

لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری

جمعہ کے روز بھارتی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی افواج کی جانب سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے کپواڑہ، بارہمولہ، پونچھ، نوشہرہ اور اکھنور کے علاقوں میں مسلسل آٹھویں رات بلا اشتعال فائرنگ کی گئی، جس کا بھارتی فوج نے جواب دیا۔ پاکستان کی طرف سے اس پر کوئی فوری بیان جاری نہیں کیا گیا۔

تازہ جھڑپوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے 200 سے زائد ارکان نے ایک ریلی نکالی اور بھارت کے خلاف اس کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی۔

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں