حکام کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث اس طرح کی کوئی بھی مشتبہ چیز تحویل میں لے لینا معمول کی ایک کارروائی تھی۔
اشتہار
اس کبوتر کو بھارتی حکام نے پچھلے ہفتے پکڑ لیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث اس طرح کی کوئی بھی مشتبہ چیز تحویل میں لے لینا معمول کی ایک کارروائی تھی۔
تاہم جمعہ 29 مئی کو مقامی پولیس کے افسر شیلندرا مِشرا نے کہا، ’’اس کبوتر سے کوئی مشتبہ چیز نہیں نکلی جس کے بعد اسے اٹھائیس مئی کو رہا کر دیا گیا۔‘‘ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ پرندے کو کہاں چھوڑا گیا اور آیا وہ اپنے مالک تک واپس پہنچا یا نہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حبیب اللہ نامی ایک شخص نے چند روز پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ یہ اس کا کبوتر ہے اور اسے واپس کر دیا جائے۔ حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اس کبوتر کو کبوتر بازی کے ایک ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے اڑنے کی تربیت دے رہے تھا جب وہ غلطی سے لائن آف کنٹرول کے اس پار چلا گیا۔ حبیب اللہ کے بقول، ’’وہ محض ایک معصوم سا پرندہ ہے۔‘‘
بھارتی حکام کے مطابق انہیں اس لیے بھی اس پرندہ پر شک ہوا کیونکہ اس کی ٹانگ کے ساتھ ایک انگوٹھی میں کچھ نمبر درج تھے۔ حکام کو شک تھا کہ کہیں یہ کشمیر میں برسرپیکار عسکریت پسندوں کے لیے کوئی خفیہ پیغام نہ ہو۔
تاہم حبیب اللہ نے بعد میں واضح کیا کہ وہ نمبر دراصل اس کا موبائل نمبر ہے تاکہ اگر کبوتر کہیں گم ہوجائے تو اس کے مالک سے رابطہ کیا جا سکے۔
اسی دوران، پاکستانی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب بھارت کا ایک جاسوس ڈرون گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
فوجی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ جمعے کو یہ ڈرون پاکستان کی فضائی حدود میں سات سو میٹر اندر پرواز کر رہا تھا جب فوجی اہلکاروں نے اسے مار گرایا۔ اس سے قبل، پاکستانی فوج نے ستائیس مئی کو بھی اسی طرح کے ایک واقعہ میں بھارتی ڈرون گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ترکی کا کبوتر بازار
ترکی کے شورش زدہ جنوب مشرقی علاقے شان لی اُرفا میں کبوتر اور ان کی نیلامی لوگوں کی تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ شوقین حضرات اس شوق پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شان لی اُرفا میں کبوتروں کی نیلامی
گتے کے ڈبوں میں بھرے یہ کبوتر تین چائے خانوں کی طرف منتقل کیے جا رہے ہیں۔ شان لی اُرفا کا یہ علاقہ کبوتروں کی خریدوفرخت کے حوالے شہرت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا شوق ہے جو سینکڑوں سالوں سے موجود ہے۔ صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ ہمسایہ جنگ زدہ ملک شام میں بھی۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شورش زدہ علاقہ
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ شان لی اُرفا شامی سرحد سے محض 50 کلومٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں کُرد عسکریت پسندوں اور ترک فوج کے جھڑپوں کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اس علاقے میں کبوتر بازی کا شوق اور یہ کاروبار چل رہا ہے۔
کبوتروں کے بارے میں جوش و جذبہ
اگر آپ قریب سے اس کبوتر کو دیکھیں تو اس کی گردن پر ایک چھوٹا سا زیور دیکھا جا سکتا ہے۔ اس زیور کو ’’سیاہ کِنفرلی‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی قیمت ایک ہزار ترک لِیرا ہے یعنی 243 ڈالرز کے برابر۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
مہنگا شوق
کبوتر فروخت کرنے والے دلداس فخر نے بتایا، ’’ایک مرتبہ میں نے ایک کبوتر 35 ہزار لِیرا (8500 یورو) میں فروخت کیا۔ یہ ایسا شوق ہے جسے آپ روک نہیں سکتے۔ میں نے کبوتر خریدنے کے لیے ایک مرتبہ گھر کی فریج اور اپنی بیوی کا سونا بھی فروخت کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
پر امن دوست
کبوتر بازی کے شوقین یہ افراد غروب آفتاب سے قبل اپنی اپنی چھتوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنے کبوتروں کو پرواز کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ پرواز کی تربیت کے دوران سینکڑوں کبوتر فضا میں اُڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 55 سالہ ریسیت گوزیل کے مطابق پرندے ان کے دوست ہیں۔ انہیں ان کے ساتھ سکون ملتا ہے۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
کبوتروں کے لیے ادویات
کبوتروں کی نیلامی کے ساتھ ساتھ یہاں ان پرندوں کے لیے وٹامن، اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ گوزیل اپنے 70 کبوتروں کو پابندی کے ساتھ بہترین خوراک اور وٹامن دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شامی تنازعے کا اس شوق پر اثر
جب شامی تنازعے کی ابتداء ہوئی تو شامی علاقے سے لوگ آ کر اپنے کبوتر ترکی میں بیچ جاتے تھے جس کی وجہ سے یہاں پر ان پرندوں کی قیمتیں کافی کم ہو گئی تھیں۔ 23 سالہ اسماعیل ازبک کے مطابق جیسے جیسے شامی تنازعہ شدت پکڑتا گیا تو وہاں سے کبوتر آنے کا سلسلہ رُک گیا اور یہاں ان کی قیمتیں بھی کافی بڑھ گئیں۔