1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: او آئی سی کا اظہار تشویش، بھارت کا انکار

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
17 مئی 2022

او آئی سی نے بھارتی حکومت پر کشمیر میں ڈیموگرافک ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ لیکن بھارت نے کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔

Indien Kaschmir Srinagar Sicherheitskräfte
تصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

کشمیر کی تازہ صورت حال سے متعلق 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تازہ بیانات کو بھارت نے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ بھارت نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ خطہ جموں و کشمیر اس کا اپنا اٹوٹ حصہ ہے اور اس سے متعلق کسی دوسرے فریق کو مداخلت کی اجازت نہیں۔

او آئی سی نے 16 مئی پیر کے روز اپنے سلسلہ وار متعدد ٹویٹ میں کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات پر یہ کہہ کر شدید نکتہ چینی کی کہ بھارت خطہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، ان کے ساتھ یکجہتی کا بھی اظہار کیا اور اقوام متحدہ سے مداخلت کی بھی اپیل کی ہے۔

بھارت نے کیا کہا؟

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اریندم باغچی نے او آئی سی کے بیانات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''ہمیں افسوس ہے کہ او آئی سی سکریٹریٹ نے ایک بار پھر بھارت کے اندرونی معاملات پر غیر ضروری تبصرہ کیا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت ہند، ماضی کی طرح اس بار بھی مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر، جو بھارت کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ ہے،سے متعلق او آئی سی کی طرف سے کیے گئے دعووں کو مسترد کرتی ہے۔''

 

تصویر: Danish Ismail/REUTERS

بھارت کا مزید کہنا تھا کہ ''او آئی سی کو کسی ایک ملک کے کہنے پر بھارت کے خلاف اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے۔'' بھارت کا الزام ہے کہ 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کشمیر سے متعلق بیانات پاکستان کی ایما پر جاری کرتی ہے اور ''ایک ملک'' سے اس کی مراد پاکستان ہوتا ہے۔ 

اسلامی تعاون تنظیم وقتاً فوقتا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے، تاہم بھارت حسب معمول اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت بتا کر مسترد کرتا رہتا ہے۔ تازہ بیانات بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی حد بندی کے حوالے سے ہیں۔ 

او آئی سی نے کشمیر پر کیا کہا؟

 اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے جنرل سکریٹریٹ نے پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''غیر قانونی طور پر بھارتی قبضے والے جموں اور کشمیر میں انتخابی حدود کو دوبارہ کھینچنے، علاقائی آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور کشمیری عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی بھارتی کوششوں پر، اسے گہری تشویش لاحق ہے۔''

تنظیم نے اپنی ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ کشمیر میں، ''حد بندی کا عمل، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت تمام بین الاقوامی قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔'' 

تصویر: AFP/B. Aldandani

ادارے نے اپنی ایک تیسری ٹویٹ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہوئے اس معاملے میں اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی۔ بیان میں کہا گیا، ''اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کی تمنا پوری ہونی چاہیے۔ تنظیم بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیتی ہے کہ وہ اس طرح کی 'حد بندی' عمل کے سنگین مضمرات کا فوری طور پر نوٹس لے۔''

پیر کے روز ہی ادارے نے اپنی ایک چوتھی ٹویٹ میں کشمیریوں کی طویل جد و جہد کی حمایت کی اور کہا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔

بھارتی حکومت نے چند روز قبل ہی اپنے زیر انتظام کشمیر میں اسمبلی کی نشستوں کی از سر نو حد بندی کے عمل کو مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مودی حکومت کے ماتحت حد بندی کمیشن نے جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں سیٹوں کا اضافہ کیا ہے، جبکہ بہت سی سیٹیں مخصوص بھی کر دی گئی ہیں۔

مبصرین کے مطابق اس کا مقصد مسلم اکثریتی خطہ کشمیر میں بھی اب ایک ہندو قوم پرست جماعت کی قیادت میں حکومت قائم کرنا ہے، تاکہ بی جے پی جمہوریت کی آڑ میں کشمیر پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کر سکے۔

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں، بشمول بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں، اور کئی دیگر حلقوں نے مودی حکومت کے ان اقدام پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور اس کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔

 او آئی سی نے بھی اسی کے تناظر میں اپنے نئے بیانات جاری کیے ہیں، تاہم پہلے کے مقابلے میں اس بار قدرے سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ چند روز قبل ہی پاکستان کی پارلیمان نے بھی بھارتی کشمیر میں حد بندی کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔

بھارتی شہری پاکستان میں والدین سے پینتالیس برس بعد مل گیا

07:02

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں