1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کر دیا

16 اگست 2024

وزیر اعظم مودی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد یہ اس متنازعہ علاقے میں منعقدہ پہلے انتخابات ہوں گے۔ کشمیر اسمبلی کو قانون سازی کا برائے نام اختیار ہی حاصل ہے۔

انتخابی کمیشن کے مطابق کل 8.7 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے اور ووٹوں کی گنتی چار اکتوبر کو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کیے جانے کا امکان ہے
انتخابی کمیشن کے مطابق کل 8.7 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے اور ووٹوں کی گنتی چار اکتوبر کو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کیے جانے کا امکان ہےتصویر: AFP

بھارت نے اپنے زیر انتظام جموںکشمیر میں اٹھارہ ستمبر کو اسمبلی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انتخابی عمل تین مرحلوں پر مشتمل ہو گا۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے آج بروز جمعہ نئی دہلی میں  نامہ نگاروں کو بتایا، ''ایک طویل وقفے کے بعد جموں و کشمیر میں انتخابات ہوں گے۔‘‘

2019ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اپنے زیر انتظام اس مسلم اکثریتی علاقے سے اس کی نیم خود مختار حیثیت چھینے جانے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ اس متنازعہ علاقے میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت کی ان تبدیلیوں کے تناظر میں کشمیر کو نئی دہلی کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے چلایا جاتا رہا ہے اور اس کی نگرانی بیوروکریٹس کرتے ہیں، جن کا کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں ہے۔

ے ان انتخابات کی نگرانی کے لیے دسیوں ہزار بھارتی فوجی تعینات کیے جائیں گےتصویر: RAKESH BAKSHI/AFP

ووٹنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے فوج

یکم اکتوبر تک جاری رہنے والے ان انتخابات کی نگرانی کے لیے دسیوں ہزار بھارتی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ انتخابی کمیشن کے مطابق کل 8.7 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے اور ووٹوں کی گنتی چار اکتوبر کو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کیے جانے کا امکان ہے۔

قانون سازی پر بہت کم اخیتار

اس علاقائی اسمبلی کو تعلیم اور ثقافت پر صرف برائے نام کنٹرول کے ساتھ  قانون سازی کے کچھ اختیارات حاصل ہوں گے۔ تاہم مقامی سیاست دانوں نے علاقے کی ریاستی حثیت کی جلد از جلد بحالی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ قانون سازی کے مکمل اختیارات مقامی اسمبلی کو واپس کیے جا سکیں۔

ش ر⁄  ع ت (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

’زخم دہلی نے دیے ہیں اور مرہم بھی وہیں سے آئے گا‘

07:19

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں