بھارت: وسیم رضوی کی قرآنی آیات حذف کرنے کی درخواست خارج
صلاح الدین زین نئی دہلی
12 اپریل 2021
بھارتی سپریم کورٹ نے قرآن سے آیات حذف کرنے سے متعلق شیعہ بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عرضی گزار پر جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
اشتہار
بھارت کی سپریم کورٹ نے اس عرضی کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے، جس میں مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن سے چھبیس آیات کو حذف کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ شیعہ بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی تھی۔
جسٹس آر ایس ناریمن کی قیادت والی بینچ نے سماعت کے دوران اسے، "قطعی طور پر فضول اور بیہودہ پٹیشن قرار دیتے ہوئے"، عرضی گزار پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
جب درخواست بینچ کے سامنے آئی تو جسٹس ناریمن نے وکیل سے پوچھا، "کیا آپ واقعی سنحیدہ ہیں؟ کیا آپ اس پر زور دے رہے ہیں؟
وسیم رضوی کی اس درخواست کی پیروی کرنے والے سینیئر وکیل آر کے رائے زائدہ نے اس پر کہا کہ وہ اس کو مدرسہ بورڈ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "اس کی مدد سے مدرسہ کے طلبہ کو کم عمری میں کافروں کے خلاف تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح کی تعلیم کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور بازار میں اس طرح کا مواد بھی دستیاب نہیں ہونا چاہیے۔ مرکزی حکومت اور مدرسہ بورڈ کو اس بات کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ان آیات کی تعلیم دینا روک دیں۔"
لیکن سپریم کورٹ کی بینچ ان دلائل سے قطعی متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی اس پر مزید سماعت کے لیے تیار ہوئی۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے وسیم رضوی پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔
لکھنؤ کے رہائشی اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گيارہ مارچ کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست میں مطاکبہ کیا تھا کہ قرآن کی ان چھبیس آیات کو اس مقدس کتاب سے نکال دیا جائے، جو ان کے بقول 'دہشت گردی کے فروغ میں معاون‘ ہوتی ثابت ہوتی ہیں۔
انہوں نے اس کیس میں کئی درجن مسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے علاوہ تقریباً ایک درجن حکومتی وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں کو فریق بھی بنایا تھا۔
اس کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہوئے اور کئی مقامات پر وسیم رضوی کے خلاف پولیس میں کیس بھی درج کرائے جا چکے ہیں۔ شیعہ مذہبی تنظیموں نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج بتایا جبکہ ان کے قریبی رشتہ داروں نے ان سے پوری طرح کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے طور پر ان کے سر کی قیمت بھی لگا دی تھی۔
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
11 تصاویر1 | 11
دوسری طرف ہندوؤں کا ایک طبقہ وسیم رضوی کی حمایت میں آگے آ گیا تھا۔ سخت گير ہندو نظریات کے حامی سوشل میڈیا پر ان کی زبردست حمایت کرتے رہے ہیں اور انہیں 'سب سے بڑا دیش بھگت‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
بھارت میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی کی طرف سے دائر کردہ درخواست ایک بڑی سازش تھی اور انہیں اس کے لیے آلہ کار بنایا گیا ہے۔ مبصرین کے بقول اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے اور عوام کی توجہ کسانوں کی تحریک سے اور مہنگائی کی طرف سے ہٹ جائے۔