بھارت: پانچ برس میں صحافیوں پر 198حملے، 40 صحافی ہلاک ہوئے
جاوید اختر، نئی دہلی
27 دسمبر 2019
بھارت میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پچھلے پانچ برسوں کے دوران کم از کم 40 صحافیوں کو اپنی جان گنوانا پڑی ہے۔
اشتہار
جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد پر سن 2014 سے 2019 کے درمیان 198سنگین حملے ہوئے۔ صرف رواں سال میں ان حملوں کی تعداد 36 رہی جب کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر اب تک چھ حملے ہوچکے ہیں۔
صحافی گیتا سیشو اور اروشی سرکار نے 'گیٹنگ اوے ود مرڈر‘ کے عنوان سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں کئی چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے لیے سرکاری ایجنسیوں، سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد، مذہبی جماعتوں سے عقیدت رکھنے والوں، طلبہ گروپوں، جرائم پیشہ گروہوں اور مقامی مافیا کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے پریس فریڈم انڈکس 2018 جاری کر دیا ہے، جس میں دنیا کے 180 ممالک میں میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال جانیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/N. Khawer
بھوٹان
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: DJVDREAMERJOINTVENTURE
نیپال
ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔ نیپال بھی تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے چلا گیا۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Maharjan
افغانستان
اس واچ ڈاگ نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Tone Koene
مالدیپ
اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo(M. Sharuhaan
سری لنکا
جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: DW/Miriam Klaussner
بھارت
بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
پاکستان
پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ تاہم اس میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ’سیلف سنسرشپ‘ میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache
عالمی صورت حال
اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔
9 تصاویر1 | 9
رپورٹ میں خواتین صحافیوں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین صحافیوں کو آن لائن ذہنی اذیت دی جاتی ہے اور 'فیلڈ‘ میں کام کے دوران انہیں 'زیادتی‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حملے کرنے والے کون تھے؟
رپورٹ تیار کرنے والی صحافی اروشی سرکار نے اس رپورٹ کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ''ہماری رپورٹ کا ایک مقصد یہ جاننا بھی تھا کہ کیا جن صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں انہیں انصاف ملا یا نہیں؟ اس کے علاوہ ہم یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ صحافیوں پر حملے کے اسباب کیا ہیں؟"
اروشی کا کہنا تھا کہ کسی واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران بھی صحافیوں پر حملے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافی کئی مرتبہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مافیا یا مجرمانہ امیج والے رہنماؤں کے نشانے پر بھی آجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا، ”ہم نے اپنی تحقیق میں پایا کہ کئی طرح کے مافیا صحافیوں پر حملے کررہے ہیں۔ مثلاً ریت مافیا، غیر قانونی کاروبار کرنے والے مافیا وغیرہ۔ کئی مرتبہ تاجر بھی اپنی بدعنوانی کے خلاف ہونے والی رپورٹنگ سے ناراض ہوکر صحافی پر حملہ کرا دیتے ہیں۔"
اروشی نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کے ذریعہ دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ بھارت میں صحافیوں کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہے اور پچھلے چار پانچ برسوں کے دوران صحافیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
شہریت ترمیمی بِل کے خلاف احتجاج اور انقلابی شعراء کی شاعری
04:08
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران جن 40 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا، ان میں 21 کے سلسلے میں اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ انہیں ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ رپورٹ تیار کرنے والوں نے صحافیوں پرحملوں کے جن 63 معاملات کی تفصیلی جانچ کی ان میں صرف 25 کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ 18میں معاملہ ایف آئی آر سے آگے نہیں بڑھا۔ صرف تین معاملات میں چارج شیٹ داخل کئی گئی لیکن معاملہ آگے جا کر رک گیا۔ جب کہ سزا کی شرح تقریباً صفر رہی۔
صحافی رپورٹ درج کرانے سے گریز کرتے رہے
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات صحافی اپنے اوپر ہونے والے حملوں کی رپورٹ پولیس میں درج کرانے سے گھبراتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ جس میڈیا ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں، وہ ادارہ ان کی قانونی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران بھی متعدد صحافیوں کو زیادتیوں کا شکار ہونا پڑا۔ 20 دسمبر کو کرناٹک میں مظاہروں کی رپورٹنگ کے لیے کیرالا سے آئے ساتھ ٹی وی جرنلسٹوں کو پولیس نے سات گھنٹے تک حراست میں رکھا۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ 'مجرموں جیسا سلوک‘ کیا گیا۔ کیرالا کے وزیر اعلی کی مداخلت کے بعد ہی ان صحافیوں کو رہائی مل سکی تھی۔ اسی طرح لکھنؤ میں مظاہروں کے دوران صحافی عمر رشید کو دو گھنٹے تک تھانے میں رکھا گیا اور ان سے غیر ضروری سوالات پوچھے گئے۔
صحافیوں کی تنظیم 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات 'جمہوریت کا گلا گھونٹنے‘ کے مترادف ہیں۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں صحافیوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ دنیا میں پریس کی آزادی کے انڈکس میں سن 2019 میں بھارت 180ملکوں میں 140ویں نمبر پر تھا۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔