1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پلوامہ حملے کا 'جشن' منانے پر طالب علم کو پانچ برس کی جیل

صلاح الدین زین
2 نومبر 2022

بھارتی عدالت نے کشمیر میں پلوامہ حملے کے تعلق سے سوشل میڈیا پر بعض پوسٹوں کے حوالے سے ایک طالب علم کو پانچ برس قید کی سزا سنا دی۔ ملزم فیض رشید اس وقت 19 برس کے تھے اور ساڑھے تین برس سے زیر حراست ہیں۔

Indien Pulwama - Anschlag auf Bus an der Autobahn Srinagar-Jammu
تصویر: Reuters/Y. Khaliq

بھارتی شہر بنگلورو کی ایک خصوصی عدالت نے 22 سالہ نوجوان فیض رشید کو سن 2019 میں پلوامہ  میں بھارتی فوجیوں پر ہونے والے حملے پر ''جشن منانے'' اور فیس بک پوسٹوں میں ''توہین آمیز'' تبصرہ کرنے پر پانچ برس قید کی سزا کے ساتھ ہی 25,000 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

'پلوامہ حملے سے سب سے زیادہ فائدے میں کون رہا'، راہول گاندھی

یہ فیصلہ ایڈیشنل سٹی سول اینڈ سیشن جج گنگا دھر سی ایم نے سنایا، جنہوں نے نوجوان طالب علم کو دفعہ 153 اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے) اور دفعہ 201 (ثبوت کو غائب کرنے) کا مجرم قرار دیا۔

پاکستان کے خلاف ایک اور بھارتی جارحیت کا خدشہ ہے، شاہ محمود قریشی

ان پر ملک سے بغاوت کا بھی کیس درج کیا گیا تھا، تاہم جس دفعہ کے تحت یہ کیس ہے، اس پر سپریم کورٹ نے فی الوقت روک لگا رکھی ہے، اس لیے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ 

معاملہ کیا ہے؟

سن 2019 میں جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر  کےپلوامہ میں عسکریت پسندوں نے بھارتی فورسز کی ایک گاڑی کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا تھا، اس وقت ملزم فیض رشید کی عمر محض 19 برس کی تھی اور وہ کالج کے ایک طالب علم تھے۔ گزشتہ تقریبا ًساڑھے تین سال سے وہ زیر حراست ہیں۔

اس حملے میں بھارت کے نیم فوجی دستوں کے تقریبا ً40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فیض رشید کو اس کے فوری بعد  14 فروری 2019 کو ان کی بعض فیس بک پوسٹوں کے لیے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ ان پوسٹوں میں جموں و کشمیر میں ہونے والے اس حملے میں، جو نیم فوجی دستے ہلاک ہوئے، ان کی موت کا جشن منایا گیا۔

فیض رشید بھارت کے معروف جنوبی شہر بنگلورو کے کچرکناہلی کے رہائشی ہیں، جن کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ان کا موبائل فون اور دیگر آلات ضبط کر لیے تھے۔ رشید پر الزام ہے کہ انہوں نے دہشت گردانہ حملے کا جشن منانے اور فوج کا مذاق اڑانے کے لیے مختلف میڈیا اداروں پر تقریباً دو درجن تبصرے کیے تھے۔

عدالت نے کیا کہا؟

عدالت نے اپنے  فیصلے میں کہا کہ استغاثہ نے ایسے ثبوت پیش کیے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پلوامہ میں جوانوں پر ہونے والے خودکش حملے کی حمایت کرتے ہوئے توہین آمیز تبصرے کیے۔ اس کا مقصد مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا تھا، جو کہ مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے عوامی سکون میں خلل پڑنے کا خدشہ تھا۔

جج نے یہ بھی کہا کہ استغاثہ نے ''یہ ثابت کرنے کے لیے ایسے شواہد شامل کیے ہیں کہ ملزم نے بھارت کی خود مختاری اور سالمیت میں خلل ڈالنے کے ارادے سے یہ پوسٹس اور تبصرے کیے تھے۔ ملزم کی طرف سے کیے گئے تبصروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حملے کے اس واقعے سے خوش تھا۔''

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ میں عسکریت پسندوں نے بھارتی فورسز کی ایک گاڑی کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا تھا، جس میں تقریبا 40 افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: Hindustan Times/Imago Images

چونکہ جرم کے وقت ان کی عمر محض 19 برس کی تھی اس لیے رشید پروبیشن کے اہل تھے، یعنی انہیں حراست میں رکھنے کے بجائے رہا کیا جا سکتا تھا۔ تاہم عدالت نے انہیں پروبیشن دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ رشید کی طرف سے یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا، ''ملزم نے ایک دو بار تضحیک آمیز تبصرہ نہیں کیا، بلکہ انہوں نے فیس بک پر تمام نیوز چینلز کی تمام پوسٹوں پر اسی طرح کا تبصرہ کیا۔ مزید یہ کہ وہ کوئی ان پڑھ یا عام آدمی نہیں ہیں۔ جرم کے وقت وہ انجینیئرنگ کے طالب علم تھے اور انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر جان بوجھ کر پوسٹس اور تبصرے کیے۔''

پلوامہ حملہ اور بھارت پاکستان تعلقات

بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام شدت پسند تنظیم جیش محمد پر لگایا تھا اور حملے کے کچھ روز بعد ہی اس نے پاکستان کے بالا کوٹ علاقے میں جیش محمد کے مبینہ تربیتی کیمپوں پر فضائی حملہ کر کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی بھی کیا تھا۔

تاہم پاکستان نے بھارت کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے چند جہاز جلد بازی میں کچھ دھماکا خیز مواد جنگلی علاقوں میں گراکر فرار ہو گئے۔ پاکستان نے اسے فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی تھی اور فضائی حملوں میں بعض بھارتی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔

اس کے رد عمل میں جب بھارت نے پاکستانی فضائیہ کا تعاقب کیا تو پاکستان نے اس کے جنگی طیارے کو اپنی سرزمین پر مار گرایا اور اس کے ایک پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا تھا جنھیں بعد میں خیرسگالی کے جذبات کے طور پر رہا کر دیا گیا تھا۔

اس حملے کے بعد ہی سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی، وہ ابھی تک جاری ہے۔ اسی برس اگست میں بھارت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئین اختیارات ختم کر دیے گئے تھے اور اس کی وجہ سے رشتے مزید خراب ہو گئے۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

04:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں