راجستھان کے کھوئیاں گاؤں میں دو ہفتے کے دوران 70 سے زائد گدھوں کے چوری ہونے کے بعد چرواہوں نے ان کو تلاش کرنے اور واپس لانے کے لیے پولیس کو 15 دنوں کی مہلت دی ہے۔ اس مقصد کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
اشتہار
بھارت کے مغربی صوبے راجستھان میں ہنومان گڑھ ضلع کے کھوئیاں گاؤں میں گزشتہ تقریباً پندرہ دنوں کے اندر چرواہوں کے 76 گدھے لاپتہ ہو چکے ہیں۔چرواہوں کا الزام ہے کہ ان کے یہ گدھے چوری کر لیے گئے ہیں۔چرواہے ان وارداتوں کی وجہ سے کافی پریشان اور ناراض ہیں۔ انہوں نے مقامی انتظامیہ کو مہلت دی ہے کہ پندرہ دنوں کے اندر ان کے گدھوں کا پتہ لگایا جائے ورنہ وہ اپنے احتجاجی مظاہرے تیز کر دیں گے۔
چرواہوں کی اس دھمکی کے بعد ضلعی پولیس نے چار پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے، جو اطراف کے گاؤں میں جا کر گدھوں کو تلاش کر رہی ہے۔
ایک مقامی سیاسی رہنما سریش سوامی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گدھے ہمارے ذریعہ معاش کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اس علاقے میں مختلف طرح کے سامان لانے لے جانے کے لیے گدھوں کا ہی استعمال ہوتا ہے لیکن پچھلے دو ہفتے کے دوران 70 سے زائد گدھے چوری ہو گئے۔
سریش سوامی کا کہنا تھا،"ہم نے پولیس سے اس کی شکایت کی اور گدھوں کا پتہ لگانے کی درخواست کی لیکن انہوں نے ہماری باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی، جس کے بعد ہمیں مجبوراﹰ تھانے کے باہر دھرنا دینا پڑا۔" انہوں نے مزید کہا کہ گدھوں کی چوری ایک بہت سنگین مسئلہ ہے،"چونکہ چرواہے بھیڑ بھی پالتے ہیں اس لیے اگر گدھے چوری ہو سکتے ہیں تو ہم یہ کیسے اطمینان کر لیں کہ ہماری بھیڑیں محفوظ ہیں۔"
کھوئیاں تھانے کے انچارج وجیندر شرما نے بتایا کہ پولیس نے چرواہوں سے وعدہ کیا ہے کہ پندرہ دنوں کے اندر ان کے گدھے تلاش کر لیے جائیں گے۔ اس کے بعد چرواہوں نے اپنا دھرنا ختم کر دیا۔ انہوں نے بتایا، "ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی قیادت میں گدھوں کی تلاش کے لیے ایک ٹیم قائم کر دی گئی ہے اور اس ٹیم کے اہلکار پچھلے تین دنوں سے قریبی گاؤں میں گدھوں کا پتہ لگارہے ہیں۔"
اشتہار
'یہ گدھے ہمارے نہیں ہیں '
مقامی چرواہوں کے دھرنے اور دھمکی کے بعد پولیس نے پندرہ گدھوں کو برآمد کرنے کا دعوی کیا۔ تاہم چرواہوں نے انہیں اپنے گدھے ماننے سے انکار کر دیا۔
سریش سوامی نے بتایا کہ چرواہوں نے اپنے گدھوں کے مختلف نام دے رکھے ہیں۔ انہوں نے جب ان گدھوں کو ان کے نام پنکو، ببلو وغیرہ سے پکارا تو گدھوں نے کسی طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کیا، اس لیے چرواہوں نے انہیں اپنا گدھا ماننے سے انکار کردیا۔
مقامی سیاسی رہنما سریش سوامی کا کہنا تھا کہ اگر پولیس نے اپنے وعدے کے مطابق پندرہ دنوں کے اندر گدھے تلاش کرکے نہیں دیے تو احتجاجی مظاہرہ دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔
ایک گدھے کی قیمت بیس ہزار روپے
اپنے گدھے چوری ہونے سے مایوس چرواہوں کا کہنا ہے کہ ان کے ایک گدھے کی اوسطاً قیمت تقریباً بیس ہزار روپے ہے۔ اس طرح ان لوگوں کو مجموعی طور پر چودہ لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو گیا۔ ان لوگوں کا تاہم کہنا ہے کہ گدھوں کی قیمت سے زیادہ انہیں اپنے مددگار جانوروں کے کھونے کا دکھ ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کے مختلف شہروں اور بالخصوص راجستھان کے جے پور ضلع میں ہر سال گدھوں کا ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ پانچ سو برس سے جاری ہے۔
گدھوں کی تعداد کے حوالے سے گو کہ ٹھوس سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق راجستھان میں گدھوں کی تعداد 23 ہزار کے قریب ہے۔ ان کا استعمال سامان لے جانے کے علاوہ کئی جگہوں پر کھیتی باڑی میں بھی کیا جاتا ہے۔
بھارت سرکار کی طرف سے کرائے جانے والے مویشی شماری کے مطابق سن 2012 سے 2019 کے درمیان گدھوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔ ملک میں گدھوں کی تعداد میں 61 فیصد کی کمی آئی ہے۔
ارے یہ کیا ہے؟ نقل و حمل کے عجیب و غریب ذرائع
آلوؤں کی بوریاں، میٹروں لمبی لکڑی یا کئی کئی کلوگرام گنّا، دنیا بھر میں لوگ کسی نہ کسی طرح سے اپنی چیزیں ایک سے دوسری جگہ لے جانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں، خواہ بائیسکل اور موٹرسائیکل کے ذریعے اور یا پھر گدھے کے ذریعے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase
کانگو: چوکُوڈُو
آگے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے پہیے، ایک اسٹیئرنگ اور بڑا سا لکڑی کا تختہ چیزیں رکھنے کے لیے۔ یہ عجیب و غریب گاڑی چوکُوڈُو کہلاتی ہے اور مشرقی کانگو میں ہی بنتی اور وہیں استعمال ہوتی ہے۔ اسے دھکیلنے کا طریقہ بھی سادہ اور آسان ہے اور موٹر انجن سے چلنے والی گاڑی کا انتہائی سستا متبادل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
فلپائن: جیپنی
فلپائن میں نقل و حمل کے لیے جیپنی استعمال ہوتی ہے، جو بہت زیادہ دھواں پیدا کرنے کی وجہ سے زیادہ ماحول دوست تصور نہیں ہوتی اور تنقید کا ہدف بنتی ہے۔ اس طرز کی گاڑیاں بہت پرانی بھی ہیں۔ انہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکیوں کی چھوڑی ہوئی جیپوں کی مدد سے مقامی رنگ دے کر بنایا گیا تھا۔ اور تو اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نئے ماڈل بھی آ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Reboredo
ویت نام: موٹر سائیکل
بہت کم ہارس پاور کی یہ موٹر سائیکل جنوب مشرقی ایشیائی ملک ویت نام میں بہت کام کی چیز ہے۔ صرف دارالحکومت ہینوئے میں ہی، جس کی آبادی 6.5 ملین نفوس پر مشتمل ہے، ایسی چار ملین موٹر سائیکلز ہیں۔ صرف دو نشستوں والی اس موٹر سائیکل پر پورا کنبہ سما سکتا ہے۔ آج کل ویت نام جانے والے سیاح بھی شوق سے اس پر بیٹھ کر ملک کی سیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AFP Creative/H. D. Nam
کمبوڈیا: بانسوں کی ریل
بانسوں سے بنی یہ ریل نَوری بھی کہلاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمبوڈیا میں نقل و حمل کا یہ ذریعہ کم سے کم نظر آنے لگا ہے۔ کسی زمانے میں یہ گاڑی ایک ہنگامی حل کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ سیاحوں میں اسے بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ آپ صرف تقریباً پانچ مربع میٹر بڑے چوبی تختے پر زیادہ سے زیادہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چاول کے کھیتوں اور دیہات کے بیچوں بیچ سے گزرتے ہوئے ملک کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. C. Sothy
تھائی لینڈ: ٹُک ٹُک
سیاحوں میں ٹُک ٹُک بھی بہت مقبول ہے، جو تھائی لینڈ میں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ملکوں میں عام نظر آتی ہے۔ یہ ٹریفک کے ہجوم میں بھی ہوا سے باتیں کرتی ہے اور تنگ سڑکوں اور گلیوں سے بھی آسانی سے نکل جاتی ہے۔ یہ مسافروں کو لے جانے والی عام ٹیکسی کا سستا متبادل بھی ہے۔ انہیں آٹو رکشہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سائیکل رکشہ ہی کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔
تصویر: picture alliance/P. Kittiwongsakul
کمبوڈیا: سائیکل رکشہ
خود سائیکل رکشہ بھی ہاتھ سے چلنے والی رکشہ کی ترقی یافتہ شکل ہیں، جو کبھی جاپان میں استعمال ہوتی تھی۔ تین پہیوں والی اس سائیکل کو بہت سے ملکوں میں ٹرانسپورٹ کے ایک تیز اور سستے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل ہیں، جن میں سے کئی ایک میں آگے نہیں بلکہ پیچھے بھی بیٹھنے یا سامان لادنے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Robert Harding/S. Dee
پاکستان، افغانستان: گدھا
افغانستان یا پھر پاکستان میں بھی سامان لانے لے جانے کے لیے صدیوں سے گدھا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا یہ روایتی طریقہ پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے زراعت کے ساتھ ساتھ انسانوں کو لانے لے جانے یا پھر مال برداری کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں گدھا بہت سستا پڑتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
جرمنی: مال بردار بائیسکل
بہت سے یورپی باشندے پھر سے ٹرانسپورٹ کے سادہ طریقوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ اس بائیسکل کے ذریعے آپ اپنی شاپنگ کا سامان بھی گھر لے جا سکتے ہیں یا پھر ایک ساتھ ایک سے زیادہ بچوں کو بھی ایک سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر کولون اور برلن جیسے بڑے شہروں میں اس طرح کے بائیسکل بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ ویسے ایسی بائیسکل اتنی سستی بھی نہیں ہے، اس کی کم از کم قیمت ایک ہزار یورو بتائی جاتی ہے۔