1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت چین تعلقات کشیدہ دور سے گزر رہے ہیں، جے شنکر

جاوید اختر، نئی دہلی
22 اگست 2022

بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ باہمی تعلقات برقرار رہنے کے لیے باہمی احترام ضروری ہے، یہ یک طرفہ نہیں ہو سکتے۔ جے شنکر کے مطابق اس وقت بھارت اور چین کے تعلقات "انتہائی کشیدہ حالات" سے گزر رہے ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکرتصویر: Michael A. McCoy/Pool/REUTERS

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت اور چین کی فوج کے درمیان سن 2020 میں سرحد پر ہونے والی جھڑپ سے پیدا شدہ سرحدی تعطل ابھی تک برقرار ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بلاشبہ متاثر ہو رہے ہیں۔

برازیل میں انڈین کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے چین پر سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی  کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا، ''سرحدی علاقے میں بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی نہیں کرنے کے حوالے سے چین کے ساتھ سن 1990 کی دہائی سے ہی ہمارے معاہدے ہیں۔ لیکن انہوں (چین) نے اس کی خلاف ورزی کی۔آپ کو معلوم ہے کہ گلوان وادی میں کیا ہوا؟ یہ مسئلہ اب تک حل نہیں ہو سکا ہے اور یہ واضح طور پرباہمی تعلقات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔"

جے شنکر نے مزید کہا، ''وہ(چین) ہمارا پڑوسی ہے اور ہر کوئی اپنے پڑوسی کے ساتھ اطمینان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ ایسا ذاتی زندگی میں بھی ہونا چاہیے اور ملکوں کے لحاظ سے بھی۔ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں جن میں ایک دوسرے کے لیے احترام ہو۔ ہر ایک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے حساس ہونا چاہیے۔‘‘

مذاکرات کے 16 دور لیکن نتیجہ کوئی نہیں

خیال رہے کہ اپریل مئی 2020 میں لداخ کی گلوان وادی میں بھارت اور چین کی فوج کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی مارے گئے تھے۔ یہ لڑائی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی جانب سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے ایک برس بعد ہوئی تھی۔

 وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ ریڈیو پر اپنی ماہانہ تقریر 'من کی بات‘ میں کہا تھا، ”لداخ کی زمین پر آنکھ دکھانے والوں کو صحیح جواب دیا گیا ہے۔ اگر بھارت کو دوستی نبھانی آتی ہے تو اسے ایسے موقعوں پر صحیح جواب بھی دینا آتا ہے۔ ہمارے بہادر جوانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی بھارت ماتا کی آن پر آنچ نہیں ڈالنے دیں گے۔''

تاہم لداخ تنازعے کے بعد دو برس سے زیادہ عرصے کے دوران بھارت اور چین کے درمیان کم از کم بات چیت کے  16 ادوار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ اس دوران دونوں ملکوں کی جانب سے سرحد پر اپنی اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

چینی امور کی ماہر اور چین بھارت تعلقات پر ایک کتاب کی مصنفہ غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں۔

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

04:24

This browser does not support the video element.

بھارت چین تنازعے کا ایک سبب کشمیر بھی

غزالہ وہاب کا کہنا ہے،''ویسے تو یہ تنازعہ کافی پرانا ہے تاہم اس کی تازہ شروعات پانچ اگست 2019ء کو اس وقت ہوئی تھی جب بھارت نے کشمیر سے متعلق متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے ریاست کا خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ چونکہ لداخ بھی کشمیر کا ہی حصہ ہے اس لیے چین نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اس بھارتی فیصلے کو پوری طرح مستر کر دیا تھا، چین کا موقف ہے کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی سرحدوں کا فیصلہ تنہا بھارت کیسے کر سکتا ہے۔"

'ڈریگن ایٹ اور ڈور اسٹیپس' کی مصنفہ غزالہ وہاب کہتی ہیں، ”چین ہماری سر زمین کے کافی اندر تک آ گیا ہے اور اب واپس بھی نہیں جانا چاہتا۔ ہم نے بھی اب اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا ہے۔ تاہم کچھ اہم مقامات کے حوالے سے بات نہیں بن پا رہی ہے۔ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچؤل کنٹرول (ایل اے سی) کے کئی علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے مورچہ بند ہیں۔"

بعض دفاعی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ بھارت اور چین کے مابین سرحد پر صورت حال میں بہتری آنے بجائے ٹکراؤ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

02:52

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں