بھارت چین تنازعہ، فوجیوں کے ہلاک ہونے کی اولین چینی تصدیق
19 فروری 2021
چینی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس بھارتی افواج کے ساتھ سرحد پر مختلف جھڑپوں میں اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بیجنگ نے اپنے جانی نقصان کو عوامی سطح پر پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے۔
اشتہار
بھارت نے جون 2020ء میں لداخ سے جڑے قراقرم پہاڑی سلسلے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں اپنے بیس فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ یہ فائرنگ کے تبادلے والی روایتی لڑائی نہ تھی بلکہ بھارت اور چین کی سرحد پر تعینات فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ ایک دوسرے کو مکے مارے گئے اور پتھراؤ کے ساتھ ساتھ ڈنڈوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ چین نے بھی اس لڑائی میں اپنی فوجی کھوئے ہیں لیکن چین نے اس بارے میں خاموشی اختیار رکھی اور کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ مزید کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔
اب جب کہ دونوں ممالک کئی مذاکراتی دوروں کے بعد اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو چین کی جانب سے جھڑپوں میں چار فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
'پیپلز لبریشن آرمی' اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدہ چار فوجیوں کے ناموں کو ریاست کے شہیدوں کی فہرست میں ڈالا دیا گیا ہے۔
چین کی جانب سے ہلاک ہونے والے بٹالین کمانڈر کو 'سرحد کا دفاع کرنے والے ہیرو' کا خطاب دیا گیا ہے۔ باقی تین ہلاک شدہ فوجیوں کو بھی اعلیٰ ترین ایوارڈز دیے گئے ہیں۔
کچھ ابتدائی رپورٹس کے مطابق بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے چینی فوجیوں کی تعداد 45 تک بتائی گئی تھی۔ بھارتی فوج کے شمالی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جوشی کا کہنا ہے کہ بھارتی مبصرین نے 60 چینی فوجیوں کو اسٹریچر پر لے جاتے دیکھا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے ہلاک ہوئے تھے۔ جنرل جوشی نے ایک بھارتی نیوز چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ انتہائی سخت رویہ رکھا گیا تھا جب تک کہ بھارت نے اگست میں کیلاش رینج پر قبصہ نہیں کر لیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور 10 فروری کو لڑائی سے پیچھے ہٹنے کا معاہدہ ہوا۔ '' اب سرحدی کشیدگی ختم ہو رہی ہے کیوں کہ ہم نے کیلاش رینج میں عسکری کامیابی حاصل کر لی ہے اور مقصد حاصل ہو گیا۔ اب ہم اپریل 2020ء کے اسٹیٹس کو پر واپس جا رہے ہیں۔"
یہ واضح نہیں ہے کہ چین کی جانب سے اس وقت فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعلان کیوں کیا گیا ہے۔ لیکن چین کی کمیونسٹ جماعت کے اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق حکومت فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق قیاس آریائیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ان الزمات کو بھی رد کرنا چاہتا ہے کہ چینی فوجی لڑائی کے ذمہ دار ہیں۔
قراقرم پہاڑی سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کا آغاز گزشتہ سال مئی میں ہوا۔ یہاں دونوں ممالک کم از کم آٹھ پہاڑیوں کو اپنے ملک کا حصہ مانتے ہیں۔ جون تک کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان 1962ء کی سرحدی جنگ کے بعد سے صورتِ حال میں پیدا کشیدگی کم نہیں ہوئی اور ابھی تک بھارتی اور چینی فوجی پہاڑی سلسلے میں واقع ایل اے سی یا سرحد پر تعینات ہیں۔
ب ج، ع ح (اے پی)
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔