امریکا نے بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی کو 'چینی جارحیت' قرار دیتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ چین کو مسلمہ عالمی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔
اشتہار
امریکی کانگریس میں خارجی امور کی کمیٹی کے سربراہ ایلیئٹ اینجیل نے بھارت اور چین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے، ''بھارت اور چین کی درمیان لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر چینی جارحیت پر مجھے شدید تشویش ہے۔ چین ایک بار پھر اس بات کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں پر دھونس جما سکتا ہے۔''
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایلیئٹ نے اپنے ایک ٹویٹ میں چین کو عالمی اصول و ضوابط کی پابندی کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے لکھا، ''تمام ممالک کو ان رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس دنیا میں نہ رہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہو۔ میں چین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اصولوں کی پاسداری کرے اور سرحدی معاملات کو حل کرنے کے لیے سفارتی طریقہ کار اور موجودہ میکنزم کا استعمال کرے۔''
خیال رہے کہ گزشتہ تقریبا ًتین ہفتوں سے بھارت اور چین کی فوجیں شمال مشرقی ریاست سکّم اور لداخ کے سرحدی علاقوں پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ان علاقوں میں دونوں جانب سے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہاتھا پائی جیسے بعض واقعات میں دونوں جانب کے فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تمام کوششوں کے باوجود اب تک کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ اس کشیدگی کی وجہ بھارت ہے جس کے فوجی چینی علاقوں میں داخل ہوئے جس کے بعد یہ تنازعہ شروع ہوا۔ لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ چین سرحد پر معمول کی گشت میں رخنہ اندازی کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی فوج نے ان علاقوں میں خیمے نصب کر لیے جن پر بھارت کا دعوی ہے اور اب تک وہاں بھارتی فوج گشت کرتی رہی تھی۔
اس سے قبل امریکی وزیر داخلہ مائیک پامپیو نے بھی چین پر اس حوالے سے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کا رویہ درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نے دیکھا ہے کہ حقیقی لائن آف کنٹرول پر جمع ہونے والی اضافی چینی فوجیوں کو بھارت کے ساتھ شمالی سرحد کی جانب منتقل کیا گیا ہے۔''
بھارت کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے حل کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم فوجی سطح کی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور اب نگاہیں سفارتی کوششوں پر لگی ہیں۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
تصویر: DW
10 تصاویر1 | 10
حکمرا ں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے سرکردہ رہنما رام مادھو نے اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت میں تسلیم کیا ہے کہ سرحدی تنازعہ بلا شبہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور حکومت اسے حل کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرح کا معاملہ کوئی پہلی بار نہیں پیش آیا ہے۔ بھارت اور تبت کی سرحد پر چین کے ساتھ ایک حد تک کشیدگی پہلے سے رہی ہے اور دونوں ملکوں کی قیادت اسے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت وہ سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔''
رام مادھو کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کی سطح پر بات چیت کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور گزشتہ چند دنوں سے بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ لیکن بیجنگ میں سفارتی سطح کی بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کا کوئی حل نکل آئیگا۔
چین اور بھارت کا تقابلی جائزہ
ماضی میں بھارت اور چین کے مابین تواتر سے کئی معاملات میں اختلاف رائے رہا ہے۔ ان ممالک کے درمیان ایک خلیج حائل ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں چین کی صلاحیتیوں کے بارے میں کم معلومات بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/A.Wong
رقبہ
بھارت: 32,87,469 مربع کلو میٹر ، چین: 95,96,960 مربع کلو میٹر
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Chang
ساحلی علاقہ
بھارت: 7,516 کلو میٹر ، چین: 14,500 کلو میٹر
تصویر: picture alliance/dpa/Blanches/Imaginechina
آبادی
بھارت: 1.32 بلین ، چین: 1.37 بلین
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Jianhua
حکومتی نظام
بھارت: جمہوری پارلیمانی نظام ، چین: یک جماعتی غیر جمہوری نظام
تصویر: picture alliance/dpa
ملکی خام پیداوار (جی ڈی پی)
بھارت: 2,256 بلین ڈالر، چین: 11,218 بلین ڈالر
تصویر: Reuters/J. Dey
فی کس جی ڈی پی
بھارت: 6,616 ڈالر، چین : 15,399 ڈالر
تصویر: DW/Prabhakar
فی کس آمدنی
بھارت: 1,743 ڈالر، چین: 8806 ڈالر
تصویر: picture-alliance/ZB
متوقع اوسط عمر
بھارت: 69.09 برس ، چین: 75.7 برس
تصویر: Reuters/A. Abidi
شرح خواندگی
بھارت: 74.04 فیصد ، چین: 91.6 فیصد
تصویر: Imago/View Stock
افواج
بھارت: 12,00,000 سپاہی ، چین: 23,00,000 سپاہی
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong
برآمدات
بھارت: 423 بلین ڈالر، چین: 2,560 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP
درآمدات
بھارت: 516 بلین ڈالر، چین: 2,148 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP/Str
بندرگاہیں
بھارت: 12 بڑی اور 200 چھوٹی ، چین: 130 بڑی اور 2000 درمیانے سائز کی بندرگاہیں