بھارت چین سرحدی تنازعہ پر بھارت کے اندر ہی سیاسی جنگ شروع
جاوید اختر، نئی دہلی
10 جون 2020
بھارت اور چین کے مابین تقریباً ایک ماہ سے جاری فوجی تعطل ختم ہونے کے آثار کے درمیان اب اس معاملے پر بھارت کے اندر ہی سیاسی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
اشتہار
اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے جب وزیر اعظم نریندر مودی سے بھارت چین سرحد کی صورت حال پر سوال پوچھا تو وفاقی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے حملہ کرتے ہوئے راہول گاندھی کی سیاسی سمجھ بوجھ کو ہی نشانہ بنادیا۔
بھارتی میڈیا میں ایسی خبریں تھیں کہ بھارت او رچین کی فوجیں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری تعطل کو ختم کرکے اب لداخ کے گلوان اور ہاٹ اسپرنگ علاقوں میں دھیرے دھیرے اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے لگی ہیں، چینی فوج اب تک ڈھائی کلومیٹر پیچھے ہٹ چکی ہے اور جلد ہی دونوں افواج اپنے اپنے پرانے ٹھکانوں پر لوٹ جائیں گی۔
اس خبر کے درمیان جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ سرحد پر موجودہ فوجی تعطل کو دور کرنے کے لیے ہفتہ کے روز ہونے والی فوجی سطح کی میٹنگ میں چین نے سخت موقف اختیار کیا تھا،اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے اس خبر کو ٹیگ کرتے ہوئے آج ایک ٹوئٹ کرکے کہا”لداخ میں چینی ہمارے علاقے میں داخل ہوگئے۔ اس دوران وزیر اعظم پوری طرح خاموش ہیں اور وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔“
راہول گاندھی کے اس بیان پر جوابی حملہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا”راہول گاندھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ چین جیسے بین الاقوامی معاملات پر ٹوئٹر پر سوالات نہیں پوچھے جانے چاہئیں۔لیکن وہ وہی شخص ہیں جنہوں نے بالاکوٹ ایر اسٹرائیک اور 2016میں اڑی حملے کے ثبوت مانگے تھے۔“
راہول گاندھی اور کانگریس پارٹی لداخ میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان جاری تعطل کے حوالے سے مسلسل حملے کررہی ہے۔ راہول گاندھی نے منگل کے روز وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے بھی سوال کیا تھا”کیا چینی فوج بھارت کے علاقے میں داخل ہوگئی ہے؟“
اس کے جواب میں لداخ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان جام یانگ زیرینگ نامگیال نے راہول گاندھی پر حملہ کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ”ہاں! چین نے درج ذیل معلومات کے مطابق بھارت کے علاقوں پر قبضہ کیا ہے...
کانگریس کے دور حکومت میں 1962میں اکسائی چن (37244مربع کلومیٹر)
متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت میں 2008میں چومار علاقے میں ٹیا پانگ ناک اور چابزی وادی (250میٹر)
متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت میں 2008میں زورآور قلعہ کو تباہ کیا گیا اور 2012میں پی ایل اے کا آبزرونگ پوائنٹ قائم کیا گیا۔ا س کے علاوہ 13گھر وں پر مشتمل چینی کالونی بنائی گئی۔
یو پی اے حکومت میں 2008-09 میں ڈیمزوک اور ڈونگتی کے درمیان بھارت نے ڈوم چیلی (قدیم تجارتی پوائنٹ) گنوا دیا۔“
نامگیا ل نے اس کے ساتھ ہی ایک نقشہ بھی شیئر کیا ہے جس میں 2012 تک کی کانگریس کی حکومت کے دوران بھارتی علاقوں پر چینی فوج کے قبضے کو دکھایا گیا ہے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان نامگیال نے مزید لکھا ”میں امید کرتا ہوں کہ راہول گاندھی اور کانگریس حقائق پر مبنی میرے جواب سے متفق ہوں گے اور امید ہے کہ وہ پھر گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔“
اس دوران کانگریس کے سینئر رہنما اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلی ہریش راوت بھی میدان جنگ میں کود پڑے۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا”آج کی بڑی خبر# چین کے فوجی#لداخ علاقے میں تین مقامات سے پیچھے ہٹے ہیں۔ جب وہ آگے آئے تھے تبھی تو پیچھے ہٹے ہیں۔ # چین کے فوجی ہمارے علاقے میں کتنا آگے آئے تھے کیا یہ معلوم کرنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے؟ یہ سوال اپوزیشن نہیں پوچھے گا تو پھر کون یہ سوال پوچھے گا؟“
میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارت اور چین کے اپنی اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹانے کے فیصلے کو ایک اچھا اشارہ سمجھا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چھ جون کو دونوں افواج کے درمیان جو بات چیت ہوئی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے اور مستقبل میں دونوں افواج کے درمیان مزید بات چیت ہوگی۔حالانکہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ابھی صرف آغاز ہے اور تعطل کو پوری طرح ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ فوجوں کے واپس ہٹنے کے حوالے سے ابھی تک حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی بیان نہیں آیا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی فوج اس مرتبہ متنازعہ علاقے میں کافی آگے تک آگئی ہے اوراس نے بھارت کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے تاہم مودی حکومت اس طرح کے دعووں سے انکار کررہی ہے۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔