بھارت اورچین کے درمیان سرحد پر ایک ماہ سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اعلی فوجی کمانڈروں کی بات چیت شروع ہونے میں اب جب صرف چند گھنٹے رہ گئے ہیں نئی دہلی نے امریکا کے بعد روس سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
اشتہار
ذرائع کا کہنا ہے کہ گوکہ بھارت، چین کے ساتھ تنازعے کو حل کرانے میں کسی کی ثالثی کے خلاف ہے تاہم اگر تعطل برقرار رہا تو آنے والے دنوں میں نئی دہلی دیگر ملکوں کے ساتھ بھی اس مسئلے پر بات چیت کرسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلا نے نئی دہلی میں روسی سفیر نیکولائی کداشیف سے بات چیت کی اور انہیں بھارت اور چین کے درمیان واقع حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر موجودہ فوجی کشیدگی کی صورت حال کی تفصیلات بتائیں۔
اسٹریٹیجک امور سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ نریندر مودی حکومت اس پیچیدہ صورت حال سے کسی طرح نکلنا چاہتی ہے جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے الجھی ہوئی ہے۔ اسی اقدام کے تحت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اور اب بھارتی خارجہ سکریٹری نے روسی سفیر کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ 2017 کے ڈوکلام تنازعہ کے وقت جب بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان 70 سے زیادہ دنوں تک سرحد پر تعطل برقرا ررہا تھا، اس وقت بھی نئی دہلی نے کسی دوسرے ملک کے ساتھ اس تنازعہ پر بات چیت نہیں کی تھی۔
بھارت نے حالانکہ ابتدا میں صورت حال کو’معمول کے مطابق‘بتانے کی کوشش کی تھی تاہم اب اعلی فوجی رہنما بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ایل اے سی پر سب کچھ خیریت سے نہیں ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل کے پروگرام میں تسلیم کیا کہ ’چینی فوجی اچھی خاصی تعداد میں حقیقی کنٹرول لائن پر موجود ہیں لیکن بھارت نے بھی اپنی طرف سے جو کچھ کرنا چاہیے کیا ہے۔‘
پچھلے 20 برس کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے پہلی مرتبہ امریکی صدر کے ساتھ بھارت چین سرحد پر کشیدگی کی بات عوامی طور پر تسلیم کی۔ گوکہ نئی دہلی اور واشنگٹن ماضی میں بھی بھارت چین سرحد کے موضوع پر بات چیت کرتے رہے ہیں تاہم اس کے لیے ’علاقائی ترقی‘ یا ’علاقائی سلامتی کی صورتحال‘ جیسے سفارتی الفاظ کی آڑ لی جاتی تھی۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تنازعہ کو حل کرانے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی لیکن چین نے اسے براہ راست اور بھارت نے بالواسطہ طورپر مسترد کردیا ہے۔
ہفتہ چھ جون کو بھارت اور چین کے سرحدی علاقے چھوشول۔ مولڈو میں کمانڈروں کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں بھارت اس تنازعہ کے قابل قبول حل پر زور دے گا۔ ماہرین کے مطابق بھارت اس بات پر زور دے گا کہ’پہلی اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ایل اے سی پر موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے پہلے کی صورتحال کو بحال کیا جائے۔‘
نئی دہلی کے جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر رنجن کمار کا کہنا تھا کہ موجودہ تعطل کے کئی اسباب ہیں۔ مثلاً چینی فوج نے پینگ یونگ سو علاقے میں بھارتی فوجیوں کی گشت روک دی ہے۔ پینگ یونگ سو اور گلوان وادی میں چین نے فوج کی تعداد میں اضافہ کردیا جس کے بعد بھارت نے بھی ان علاقوں میں اپنی فوجی نفری بڑھا دی۔ ایل اے سی پر تعمیرات کا معاملہ حالیہ تنازعہ کا ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ وقتا ً فوقتاً جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔” یہ امور دونوں فوجی کمانڈوں کی بات چیت میں نمایاں رہیں گے۔ گوکہ وقتاً فوقتاً جھڑپوں، ایک دوسرے کے علاقے میں دراندازی اور فوجیوں کے رویے کے معاملات فوجی کمانڈر بات چیت کے ذریعہ حل کرسکتے ہیں لیکن ایل اے سی کی بہتر تفہیم اور سرگرمیوں کی اجازت دینے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ سیاسی اور سفارتی سطح پر ہی کیا جاسکتا ہے۔“
دریں اثنا کرگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کی قیادت کرنے والے سابق آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حالیہ دنوں بھارت چین سرحد پر فوجیوں کے درمیان کشیدگی کے واقعات جتنی تیزی اور تسلسل کے ساتھ پیش آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات پر قابو پانے کا موجودہ میکانزم موثر نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا ”خبروں کے مطابق بھارت اور چین اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ دونوں میں سے کسی کو بھی صورت حال کو بگاڑنے میں دلچسپی نہیں ہے۔“
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔