1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، چین وزرائے خارجہ کے مابین سرحدی تنازع پر تبادلہ خیال

جاوید اختر، نئی دہلی
4 جولائی 2024

بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ایی نے لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) کے تنازعے پر جمعرات کے روز بات چیت کی۔ مشرقی لداخ کا یہ سرحدی تنازع مئی میں اپنے پانچویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔

 بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر  چینی زیر خارجہ وانگ ایی
ایس سی او کی میٹنگ کے دوران جمعرات کے روز بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ایی سے ملاقات کیتصویر: Bai Xueqi/Xinhua/imago images

 قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہوں کی میٹنگ کے دوران جمعرات کے روز بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ایی سے ملاقات کی۔ آج کی میٹنگ میں دونوں رہنماؤں نے لداخ کے علاقے میں لائن آف ایکچوول کنٹرول(ایل اے سی) کے ساتھ جاری سرحدی تنازع پر تبادلہ خیال کیا۔

'لداخ پر بھارتی دعویٰ ناقابل تسلیم، یہ ہمارا حصہ ہے'، چین

’اروناچل پردیش ہمارا ہے'، چین کی مودی کے دورے پر تنقید

بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وانگ ایی سے ملاقات کے دوران جے شنکر نے دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں باقی ماندہ مسائل کے جلد حل کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں وزراء نے سرحدی علاقوں میں بقیہ مسائل کا جلد از جلد حل تلاش کرنے کے لیے "سفارتی اور فوجی ذرائع سے کوششوں کو دوگنا کرنے" پر اتفاق کیا۔

آئیے سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے بات کریں، چینی اعلیٰ سفارت کار

چین کا 'معیاری نقشہ' اور اس کے خلاف بھارت کا شدید احتجاج

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا،"ایل اے سی کا احترام کرنا اور سرحدی علاقوں میں امن و آشتی کویقین بنانا ضروری ہے۔ باہمی احترام، باہمی حساسیت اور باہمی مفادات کے تین پہلو ہمارے دو طرفہ تعلقات کی رہنمائی کریں گے۔"

اروناچل پردیش میں ایل اے سی کے قریب بھارت چین سرحدی علاقہتصویر: Prabhakar Mani Tewari

سرحدی تنازع پانچویں سال میں داخل

بھارتی خطے مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع مئی میں اپنے پانچویں سال میں داخل ہو گیا۔ سن 2020 میں اس وقت کشیدگی بھڑک اٹھی تھی جب گلوان سیکٹر میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ان میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہو گئے تھے۔ چین نے اپنے کم از کم چار فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد سے ہی دونوں ملکوں نے اس سرحدی علاقے میں اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا۔ اس تنازع کو حل کرنے کی دونوں ملکوں کی طرف سے اب تک کی جانے والی ایک درجن سے زائد کوششوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔

اگرچہ بھارت اور چین نے کچھ متنازع علاقوں سے اپنی اپنی فوجیں پیچھے کرلی ہیں لیکن ایل اے سی پر کئی مقامات پر مسئلہ برقرار ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی سے "ہم دونو ں میں سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہوا ہے۔"

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سالانہ سربراہی اجلاس تصویر: Sergei Savostyanov/Tass/dpa/picture alliance

ایس سی او اجلاس میں جے شنکر کی شرکت

 ایس جے شنکر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نمائندہ کے طورپر شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے منگل کے روز قازقستان کے دارالحکومت آستانہ پہنچے تھے۔ اجلاس سے قبل انہوں نے قزاقستان کے اپنے ہم منصب مراد ابوجلیلی نورتلیف سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماوں نے وسطی ایشیا میں بھارت کی مصروفیات میں اضافہ کرنے سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔

 ایس سی او بھارت، چین، روس، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان پر مشتمل ایک بااثر اقتصادی اور سکیورٹی بلاک ہے، جو بین الاقوامی تنظیموں میں سے ایک اہم تنظیم کے طورپر ابھرا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق سربراہی اجلاس میں رہنما گزشتہ دو دہائیوں میں تنظیم کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ کثیر جہتی تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس میں علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کے اہم موضوعات پر بھی بات چیت ہو گی۔

سربراہی اجلاس میں روسی صدر ولادیمرپوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے علاوہ میزبان صدر قاسم جومارت توقایف، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیایف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، کرغزستان کے صدرصدر جباروف، بیلاروس کے صدر الیکزینڈر لوکاشینکو بھی اجلاس میں شریک ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوآن اور آذربائیجان کے صدر الہام علی ایف بھی اجلاس میں موجود ہیں۔

لداخ کو بھارت سے ملانے کے لیے اہم سرنگ کی تعمیر

03:13

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں