1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت۔ چین کشیدگی: بات ابھی باقی ہے

جاوید اختر، نئی دہلی
23 ستمبر 2020

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوحل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈرں کے درمیان چھٹے دور کی طویل بات چیت کے بعد جاری بیان میں کسی پیش رفت کا ذکر نہیں ہے۔

Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

ایشیا کے دو جوہری صلاحیت رکھنے والے پڑوسیوں، بھارت اور چین، کے فوجی گزشتہ جون سے لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔  سرحد پر جاری فوجی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر کئی دور کی بات چیت کے باوجود ابھی تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

پیر کے روز دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان 14 گھنٹے تک چلنے والی بات چیت کے بعد بھارتی فوج کی طرف سے منگل دیر رات ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بات چیت میں اس امر پر اتفاق ہوا کہ دونوں ملکوں کی فوج سرحد پر اپنے جوانوں کی تعداد میں مزید اضافہ نہیں کریں گی۔

بھارت اور چین کے درمیان 15جون سے اس وقت سے سرحد پر کشیدگی جاری ہے جب دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان تصادم اور ہاتھا پائی ہوگئی تھیتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa

بھارتی وزارت دفاع نے بھی ایک بیان میں کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان ”زمینی سطح پر بات چیت کو مزید مستحکم کرنے" اور ایل اے سی پر ”غلط فہمیوں اور غلط فیصلوں سے بچنے“ پر بھی اتفاق ہوا۔  تاہم اس بیان میں دونوں فوج کے ایک دوسرے کے سامنے سے ہٹنے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

میراتھن میٹنگ لیکن بلانتیجہ

پیر کے روز دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان تقریباً 14گھنٹے کی بات چیت ہوئی لیکن اس کے اختتام پر کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔  منگل دیر رات بھارتی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کیا، جسے اس نے مشترکہ بیان بتایا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے تسلیم کیا ہے کہ ”آگے کے پوزیشنوں پر اب مزید فوجی نہیں بھیجے جائیں گے۔"  بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ملک ”جتنی جلدی ممکن ہو“  فوجی کمانڈروں کی سطح پر ساتویں دور کی بات چیت کریں گے اور ”ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سرحدی علاقے میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔“

قابل ذکر ہے کہ پیر کے روز فوجی کمانڈروں کی اس میٹنگ سے تقریباً دو ہفتے قبل دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی تھی اور ان کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ دونوں ملکوں کی افواج لداخ میں ایک دوسرے کے سامنے سے ہٹ جائیں گی، ایک دوسرے سے مناسب دوری پر رہیں گی اور کشیدگی کو کم کریں گی۔ 

دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے فوج کے ہٹنے کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی تھی اور منگل کے روز جاری مشترکہ بیان میں بھی کسی مقررہ  وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

'مشترکہ بیان‘

بھارت میں دفاعی امور کے ماہرین اس 'مشترکہ‘ بیان کو شبہ کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ سابق فوجی افسر سوشانت سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ بات چیت کے پہلے کے پانچ دور کے بعد بھارت نے اس طرح کا کوئی بھی بیان اس لیے جاری نہیں کیا تھا کیوں کہ بھارت اس طرح کے بیانات کے مسودے سے متفق نہیں تھا۔ انہوں نے لکھا کہ اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے ’نئی موجودہ صورت حال‘  کو تسلیم کرلیا ہے۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر سابق فوجی افسر اجے شکلا بھی سوشانت سنگھ کی بات سے متفق ہیں۔  انہوں نے لکھا ہے کہ بیان میں بھارت کے دو اہم مطالبات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پہلی یہ کہ چینی فوجی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جائیں اور دوسری یہ کہ اپریل سے پہلے کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ 

منزل ابھی دور

اجے شکلا نے ذرائع کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ چینی فوج پی ایل اے نے بھارتی فوج سے کہا ہے کہ چینی سپاہی اپنی موجودہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنے پر اسی وقت غور کریں گے جب بھارتی فوجی بلندی پر ان مقامات سے ہٹ جائیں جن پر انہوں نے نے 30 اگست کو کنٹرول کرلیا تھا۔

دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان چھٹے دور کی اس بات چیت سے سرحد پر جاری کشیدگی کم ہونے کے کوئی خاص آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 15جون سے اس وقت سے سرحد پر کشیدگی جاری ہے جب دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان تصادم اور ہاتھا پائی ہوگئی تھی۔ اس میں کم ا ز کم 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے، گوکہ اس تصادم میں چینی فوجیوں کی بھی ہلاکت ہوئی تھی لیکن بیجنگ نے اب تک ان کی تعداد نہیں بتائی ہے۔

چین کے سرحدی تنازعات

11:10

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں