بھارت چین کشیدگی: واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت
8 جولائی 2020بھارت اور امریکا کے خارجہ سکریٹریوں کے درمیان ہونے والی ورچوول میٹنگ میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل میں مدد کرنے سے بھی اتفاق کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف جاری بیان کے مطابق بھارت کے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا نے اپنے امریکی ہم منصب انڈر سکریٹری آف اسٹیٹ (سیاسی امور) ڈیوڈ ہیلے کے ساتھ منگل کے روز ویڈیو کال کے ذریعہ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اس سے قبل بھارتی اور چینی افواج کے درمیان لداخ میں 15جون کو ہونے والی جھڑپ کے بعد، دوہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر ایس جے شنکر کو خاموشی سے فون کر کے صورت حال پر بات چیت کی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شرنگلا او رہیلے نے’’مشترکہ مفادات کے متعدد علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت کی اور ایک آزاد، کھلے ہوئے، شمولیاتی، پرامن اور خوشحال انڈو پیسفک کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کے اپنے عہد کا اعادہ کیا۔“
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں چین کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام کو لاحق خطرات، باہمی اور کثیر فریقی سفارتی تعاون، سمندروں کی سیکورٹی اور کووڈ 19 کے حوالے سے عالمی اقدامات جیسے امور پر تفصیلی بات چیت کی۔ ”دونوں ممالک نے ایک آزاد اور کھلے ہوے انڈو پیسفک خطے کے اپنے ویزن کا اعادہ کیا، جہاں تمام ممالک پھل پھول سکیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے ویزن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انڈوپیسفک کے دیگر شرکاء کے ساتھ مل کرکا م کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔“
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں حکام نے بھارت اور امریکہ کے مابین جامع عالمی اسٹریٹیجک شراکت داری کے تحت تعلقات کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جس میں سیاسی، معاشی، تجارتی، علاقائی اور بین الاقوامی تعاون بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت 2021-2022 کے لیے اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن رہے گا۔ بھارت اور امریکا اس دوران مشترکہ مفاد کے مختلف بین الاقوامی امور میں ایک دوسرے کا زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت اورچین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کے معاملے میں امریکا بھارت کی کھل کر حمایت کررہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تنازعہ کو حل کرنے میں ثالثی کی پیش کش بھی کی تھی لیکن چین نے براہ راست اور بھارت نے بالواسطہ طورپر اسے مسترد کردیا تھا۔ دوسری طرف وائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز نے ساوتھ چائنا سمندر میں امریکا کے دو طیارہ بردار جہاز تعینات کرنے پر گزشتہ دنوں کہا تھا”ہمارا پیغام واضح ہے۔ ہم خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے۔ خواہ چین ہو یا کوئی اور۔ ہم اس علاقے یا کسی دوسری جگہ پر کسی اور ملک کو سب سے طاقتور ملک کا درجہ نہیں لینے دیں گے۔“
لیکن بھارت کی طرف سے روس کے ساتھ دفاعی سودوں سے امریکا خوش نہیں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ واشنگٹن نے اپنے پارٹنرز سے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ دفاعی سودے ختم کردیں کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف CAATSA(پابندیوں کے ذریعہ امریکہ کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قانون) کے تحت پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا”ہم بھارت کے روس سے دفاعی سودوں کے متعلق خبروں سے واقف ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا کسی مخصوص سودے کے نتیجے میں پابندی عائد کردی جائے گی۔ وزیر خارجہ نے بھارت کے کسی سودے کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کہی ہے تاہم ہم اپنے تمام اتحادیوں اور پارٹنرز سے اپیل کرتے ہیں وہ روس کے ساتھ دفاعی سودے ختم کردیں۔“
دریں اثنا بھارتی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شرنگلا نے ڈیوڈ ہیلے کے سامنے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے امریکا میں آن لائن کلاسز کرنے والے طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ خیا ل رہے کہ اس فیصلے سے ہزاروں بھارتی طلبہ مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ ڈیوڈ ہیلے نے کہا کہ وہ بھارتی طلبہ کے بہتر مفادات کو ذہن میں رکھیں گے اور فیصلے کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔