بھارت میں کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ان پر کسانوں کو پر تشدد مظاہروں کی ترغیب دینے کا الزام ہے۔ صحافیوں کی انجمن 'ایڈیٹرز گلڈ' نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اشتہار
ریاست اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے 26 جنوری کو مبینہ طور پر لال قلعے کی فصیل پر سکھ مذہب کا پرچم نصب کرنے اور پرتشدد مظاہروں پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما ششی تھرور اور ملک کے دیگر چھ سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے ہیں۔
ایف آئی آر میں معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آوازا کے مدیر ظفر آغا اور کارواں میگزین سے وابستہ اننت ناتھ اور ونود جوز کے نام بھی شامل ہیں۔
ان افراد پر بغاوت کرنے، مختلف گروپوں کے درمیان افراتفری پیدا کرنے، دانستہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کرنے، غلط معلومات پھیلانے اور مجرمانہ سازش میں ملوث ہونے جیسے متعدد دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ایسے الزامات کے ثابت ہونے پر ان صحافیوں کو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
صحافیوں کی تنظیم کا رد عمل
بھارت میں صحافیوں کی سب اہم انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے کہ صحافیوں کی ٹویٹ کی وجہ سے لال قلعے کی توہین کی گئی۔
ایڈٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس کی اس کارروائی کو ملک کی جمہوریت پر حملہ قرار قرار دیتے ہوئے،’’ میڈیا کو ڈرانے، ہراساں کرنے اور دبانے کی ایک کوشش قرار دیا‘‘۔ اس تنظیم نے اس مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا بھی ہے، تاکہ میڈیا بلا خوف و خطر آزادی سے اپنا کام کر سکے۔
’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘
04:44
صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ریلی کے دوران ٹریکٹر چلانے والے ایک شخص کی موت حادثے کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاکت ہوئی اور اسی وجہ سے مظاہرین مشتعل ہو کر لال قلعے میں داخل ہوئے اور تشدد برپا ہوا۔
لیکن ایڈیٹرز گلڈ نے اس حوالے سے ان تمام الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتجاجی مظاہرے کے دوران صحافیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے بھی لمحہ بہ لمحہ طرح طرح کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں، لہذا صحافیوں کے لیے تو یہ بالکل فطری عمل تھا کہ ان تک پہنچنے والی تمام تفصیلات فوری طور پر بتائی جائیں۔ یہ تو صحافتی عمل کے قائم کردہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔
اشتہار
صحافی کو چینل سے ہٹا دیا گیا
اس دوران بھارت کے ایک معروف نیوز چینل 'انڈیا ٹوڈے' گروپ نے اپنے کنسلٹینٹ ایڈیٹر اور سرکردہ صحافی راج دیپ سر دیسائی کو ان کی ایک متنازعہ ٹویٹ کے بعد دو ہفتے کے لیے آف ایئر کر دیا ہے۔
ابتدائی طور پر تقریبا تمام صحافیوں نے ٹریکٹر چلانے والی شخص کی موت کی وجہ پولیس فائرنگ بتائی تھی تاہم جب یہ خبر آئی کہ ان کی موت ٹریکٹر پلٹنے سے ہوئی ہے تو سبھی نے اپنی تصیح کی تھی اور راج دیپ نے بھی اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی تھی۔
تقسیم صحافت
بھارت میں صحافیوں کا ایک بڑا گروپ اور کئی نیوز چینلز دائیں بازو کی سخت گیر ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی اور مودی حکومت کے حامی ہیں۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
ایک نیوز چینل کے ایڈیٹر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ایسے آزاد صحافیوں سے خوفزدہ ہے، جو حق بات کہنے کی جراءت کرتے ہیں اور، "اسی لیے ان کے خلاف ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کو معلوم ہے کہ اگر ان کو آزاد چھوڑا گیا تو یہ انتظامیہ کو ایکسپوز کر دیں گے اور اسی لیے موقع ملتے ہیں ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔"
لیکن حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمان اور سابق صحافی سودھیش ورما پولیس کی کارروائی کو صحیح بتاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ صحافی اگر غلطی کرے گا تو اسے نتائج تو بھگتنے ہی پڑیں گے، ’’تشدد بھڑکا رہے ہیں تو جائیے اور ایجنسی کا سامنا کیجیے۔ راجدیپ تو پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں کیونکہ ان کی رپورٹنگ جانبدارانہ ہوتی ہے۔ وہ سچ کے بجائے چند افراد کو خوش کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تو ایسا کیا ہے تو قانون کا سامنا بھی کیجیے۔"
میڈیا کے لیے مشکل دور
بھارت میں مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر ریاست اترپردیش میں سب سے زیادہ صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس اینڈ رسک انالیسس گروپ' کے مطابق گزشتہ مارچ سے مئی کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں 55 صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے تھے۔
بھارت میں بعض سیاسی تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے میڈیا کے لیے مشکل ترین دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت اپنے خلاف کوئی بھی رپورٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے ایڈیٹروں کو صرف اس لیے نکالنا پڑا کیوں کہ ان کے اداریوں سے حکومت پریشانی محسوس کررہی تھی۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔