کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے معتمد خاص اور سیاسی حکمت عملی کے لیے معروف احمد پٹیل کورونا وائرس کی وبا سے دو چار تھے۔ مودی سمیت بھارت کے تمام سرکردہ رہنماؤں نے ان کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khanna
اشتہار
بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے 71 سالہ کانگریسی رہنما احمد پٹیل کا آج 25 نومبر کی علی الصبح انتقال ہوگیا۔ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد جب ان کی حالت سنگین ہوگئی تو انہیں دہلی کے مضافات گڑگاؤں کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ ان کے بیٹے فیصل پٹیل کے مطابق انہوں نے صبح تقریباﹰ ساڑھے تین بجے آخری سانس لی تھی۔
فیصل پٹیل نے صبح چار بجے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "مجھے بڑے رنج و غم کے ساتھ، صبح تین بجکر 30 منٹ پر، اپنے والد احمد پٹیل کی اندوہناک اور غیر وقتی انتقال کے اعلان پر بہت افسوس ہے۔ ایک ماہ قبل کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد متعدد اعضا کی ناکامیوں کے سبب ان کی صحت مزید خراب ہوگئی تھی۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ تمام احباب سےگزارش ہے کہ وہ کورونا سے متعلق تمام ضابطوں پر عمل کریں اور اجتماعات سے گریز کریں۔"
اس اعلان کے بعد سے ہی احمد پٹیل کے لیے تعزیاتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ احمد پٹیل سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر تھے۔ محترمہ گاندھی نے ان کے انتقال پرگہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ناقابل تلافی ایک کامریڈ کھو گیا۔ "ایک وفادار ساتھی اور دوست ۔۔۔۔ میں نے ایک ایسے ساتھی کو کھو دیا جس کی پوری زندگی ہی کانگریس پارٹی کے لیے وقف تھی۔"
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں احمد پٹیل کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، "انہوں نے برسوں سماج کی خدمت کرتے ہوئے اپنی عوامی زندگی بسر کی۔ وہ اپنے تیز ذہن کے لیے معروف تھے، کانگریس پارٹی کو مضبوط کرنے میں ان کے کردار کو یاد رکھا جائے گا۔ ان کے بیٹے فیصل سے بات کرکے میں نے تعزیت کی ہے۔ دعا ہے کہ احمد پٹیل کی روح کو سدا کے لیے قرار مل جائے۔"
معروف بھارتی سیاستدان ششی تھرور کی ڈی ڈبلیو ٹی وی سے خصوصی گفتگو
03:51
This browser does not support the video element.
کانگریس کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے احمد پٹیل کو "کانکریس کا ستون قرار دیا۔" انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "ان کی زندگی اور سانسیں کانگریس کے لیے تھیں اور مشکل ترین وقت میں بھی وہ پارٹی کے لیے کھڑے رہے۔ وہ ایک بہت بڑا سرمایہ تھے۔ ہم انہیں اکثر یاد کریں گے۔ فیصل، ممتاز اور تمام اہل خانہ کے لیے میری تعزیت اور پیار۔"
اشتہار
سیاسی کریئر
احمد پٹیل ریاست گجرات کے ضلع بھروچ میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں سن 1976 میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسی کی دہائی میں ان کا سیاسی عروج شروع ہوا اور وہ تین بار گجرات سے ہی ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ پانچ بار وہ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے بھی رکن رہے۔
سب سے پہلے راجیو گاندھی نے سن 1985 میں کانگریس پارٹی میں پارلیمنٹری سکریٹری کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ پارٹی کے امور اتنی گہرائی سے دیکھنے لگے کہ اس دور میں سونیا گاندھی اور راہول کے بعد انہیں کانگریس کا سب سے طاقت ور رہنما مانا جاتا تھا۔
ایک ایسے وقت جب بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا اقتدار اتنا آہنی ہے کہ وہ طاقت اور پیسے کی بنیاد پر شکست کھانے والی ریاستوں میں بھی اپنی حکومت بنا لیتی ہے۔ سن 2017 میں احمد پٹیل نے گجرات جیسی ریاست میں بھی راجیہ سبھا کے ایک سخت اور دلچسپ مقابلے میں بی جے پی کو شکست دے کر اپنی سیٹ جیت لی تھی اور سب کو حیران کر دیا تھا۔
بھارت کے سیاسی افق کا نیا ستارہ، پریانکا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا بھارت کے ایک ایسے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے تین افراد ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اب باضابطہ طور پر عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
جواہر لال نہرو
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
تصویر: Getty Images
اندرا گاندھی
پریانکا گاندھی کی دادی اندرا گاندھی اپنے ملک کی تیسری وزیراعظم تھیں۔ وہ دو مختلف ادوار میں بھارت کی پندرہ برس تک وزیراعظم رہیں۔ انہیں اکتیس اکتوبر سن 1984 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بعد میں منصبِ وزیراعظم پر بیٹھے۔ راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا ہیں، جن کی شکل اپنی دادی اندرا گاندھی سے ملتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
راجیو گاندھی
بھارت کے چھٹے وزیراعظم راجیو گاندھی سیاست میں نو وارد پریانکا گاندھی واڈرا کے والد تھے۔ وہ اکتیس اکتوبر سن 1984 سے دو دسمبر سن 1989 تک وزیراعظم رہے۔ اُن کو سن 1991 میں ایک جلسے کے دوران سری لنکن تامل ٹائیگرز کی خاتون خودکش بمبار نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھا۔ اُن کے قتل کی وجہ سن 1987 میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہونے والا ایک سمجھوتا تھا، جس پر تامل ٹائیگرز نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: Imago/Sven Simon
سونیا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا کی والدہ سونیا گاندھی بھی عملی سیاست میں رہی ہیں۔ وہ انیس برس تک انڈین کانگریس کی سربراہ رہی تھیں۔ اطالوی نژاد سونیا گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کی رکن رہتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla
راہول گاندھی
بھارتی سیاسی جماعت انڈین کانگریس کے موجودہ سربراہ راہول گاندھی ہیں، جو پریانکا گاندھی واڈرا کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے سولہ دسمبر سن 2017 سے انڈین کانگریس کی سربراہی سنبھال رکھی ہے۔ وہ چھ برس تک اسی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے تھے۔ راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان لوک سبھا کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. White
پریانکا گاندھی واڈرا
راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا بارہ جنوری سن 1972 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ انہوں نے سینتالیس برس کی عمر میں عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کی عملی سیاست کا فروری سن 2019 میں حصہ بن جائیں گی۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
سیاسی مہمات میں شمولیت
مختلف پارلیمانی انتخابات میں پریانکا گاندھی واڈرا نے رائے بریلی اور امیتھی کے حلقوں میں اپنے بھائی اور والد کی انتخابی مہمات میں باضابطہ شرکت کی۔ عام لوگوں نے دادی کی مشابہت کی بنیاد پر اُن کی خاص پذیرائی کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر سکتی ہیں اور بالآخر انہوں نے ایسا کر دیا۔
تصویر: DW/S. Waheed
عملی سیاست
پریانکا گاندھی واڈرا نے بدھ تیئس جنوری کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ مئی سن 2019 کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری
انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی پریس ریلیز کے مطابق پریانکا گاندھی کو پارٹی کی دو نئی جنرل سیکریٹریز میں سے ایک مقرر کیا گیا ہے۔ اس پوزیشن پر انہیں مقرر کرنے کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ اور اُن کے بھائی راہول گاندھی نے کیا۔ وہ اپنا یہ منصب اگلے چند روز میں سبھال لیں گی۔
بی جے پی کی تنقید
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پریانکا گاندھی کو کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری مقرر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے خاندانی سیاست کا تسلسل قرار دیا۔
تصویر: DW/S. Wahhed
10 تصاویر1 | 10
سونیا گاندھی کے معتمد خاص
احمد پٹیل عام طور پر سرخیوں سے بہت دور خاموشی سے کام کرنے کے لیے معروف تھے۔ بہت سے سیاسی مبصر انہیں سونیا گاندھی کا گیٹ کیپر کہتے تھے۔ وہ محترمہ گاندھی کے سیاسی سکریٹری تھے اور گزشتہ دو عشروں سے بھی زیادہ وقت سے ان کے مشیر خاص تھے۔ سونیا گاندھی نے سن 1998 میں جب سے پارٹی کی قیادت سنبھالی، اسی وقت سے احمد پٹیل نے ان کے تمام سیاسی عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
2004ء کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے سونیا گاندھی کی قیادت میں کامیابی حاصل کی تھی اور من موہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے کی پہلی حکومت قائم ہوئی۔ 2009ء میں کانگریس نے دوبارہ اس سے بہتر کامیابی حاصل کی اور اس دوران پارٹی کی سیاسی حکمت عملی میں احمد پٹیل کا کردار بہت اہم تھا۔ دس برس من موہن سنگھ کے دور اقتدار میں بھی حکومت اور گاندھی خاندان کے درمیان توازن و روابط کے لیے پٹیل نے ایک پل کی حیثیت سے کام کیا۔
عرف عام میں احمد پٹیل کوئی بہت دلکش یا پھر عوامی سطح پر بہت مقبول سیاسی رہنما نہیں تھے۔ لیکن وہ پردے کے پیچھے کام کرنے والے ایک ماسٹر اسٹریٹیجک ضرور تھے۔ کئی عشروں سے وہ کانگریس میں گاندھی خاندان کے بعد سب سے بااثر اور طاقت ور شخص خیال کیے جاتے تھے۔
کانگریس پارٹی کے خزانچی ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی میں پنپنے والے بحرانوں کو حل کرنے میں وہ آگے آگے رہتے تھے اور انتخابات کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے انہی کو ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اقتدار اور سیاسی طاقت کا ہمیشہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ استعمال کیا۔ یہی نادر معیار اور خصوصیت انہیں دوسرے سیاسی رہنماؤں اور اہل اقتدار سے ممتاز بناتی تھی۔
بھارت میں عام انتخابات
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سات اپریل سے 12 مئی تک عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ اس موقع پر آٹھ سو ملین سے زائد ووٹروں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا بھی آسان کام نہیں ہو گا۔
تصویر: DW/A. Chatterjee
چوٹی کا امیدوار
حالیہ عوامی جائزوں کے مطابق وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نریندر مودی پسندیدہ ترین امیدوار ہیں جو ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ماضی میں مغربی دنیا کے ان کے ساتھ تعلقات کوئی زیادہ اچھے نہیں رہے کیونکہ اُن پر گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منظم قتل عام کی ذمہ داری کا الزام بھی عائد ہے۔ اب امریکا اوریورپی یونین اس ہندو سیاستدان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters
گریزاں لیڈر
ایک طویل عرصے تک کانگریس پارٹی کی صدر رہنے والی سونیا گاندھی نے اپنی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے راہول گاندھی کے حوالے کر رکھی ہے۔ راہول بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پڑپوتے اور اندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ دس برس پہلے سیاست میں قدم رکھنے والے راہول کوئی بھی بڑا عہدہ لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بدعنوانی کے خلاف لڑنے والا
عام آدمی پارٹی (AAP) کے سربراہ اروند کیجریوال نے کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں متاثر کن جیت کے بعد وہ نئی دہلی کی حکومت کے سربراہ بن گئے تھے تاہم انہوں نے 49 دنوں بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس رہنما نے بنارس میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کو چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کِنگ میکر
چار دائیں بازو اور سات علاقائی جماعتوں نے اتحاد کرتے ہوئے ایک ’تیسرے محاذ‘ کی بنیاد رکھی ہے تاکہ مضبوط کانگریس جماعت اور ہندو قوم پرست بی جے پی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) میں یہ تیسرا بڑا گروپ ہے اور کسی بھی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تصویر: Sajjad HussainAFP/Getty Images
سوشل میڈیا کا کردار
ان انتخابات سے پہلے کبھی بھی بھارتی الیکشن میں سوشل میڈیا کا کردار اتنا اہم نہیں رہا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کو دلچسپ بنائے ہوئے ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے ووٹنگ
پانچ ہفتوں پر محیط ووٹنگ کے مراحل میں بھارتی ووٹر لوک سبھا کے 545 اراکین کا انتخاب کریں گے۔ بھارت میں 1998ء سے الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ انتخابی عمل کو تیز تر بنایا جا سکے۔ آئندہ انتخابات کے نتائج کا اعلان سولہ مئی کو کیا جائے گا۔
تصویر: AP
اقلیتوں کا اہم کردار
بھارت میں اکژیت ہندوؤں کی ہے لیکن یہاں آبادی کا تقریباً تیرہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ووٹر پارلیمان کی پانچ فیصد سے زائد نشستوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی اپنے روایتی سیکولر پروگرام کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے جبکہ مودی کی بھی کوشش ہے کہ وہ اپنے مسلم مخالف ہونے کے تاثر کو دور کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’نامو‘ کی لہر
نریندر مودی کو ’نامو‘ کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے۔ یہ نام ہندو دیوتاؤں کی پوجا کے دوران بھی لیتے ہیں۔ مذہب کے علاوہ مودی نے ساری دنیا کے سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کا نعرہ پیش کیا ہے۔ نہ صرف مذہبی بلکہ تجارتی حلقے بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔
تصویر: Sam Panthaky/AFP/Getty Images
عوام کی نمائندگی
عام طور پر بھارتی اراکین پارلیمان کو پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا کو راجیہ سبھا اور ایوان زیریں کو لوک سبھا کہتے ہیں۔ ایوان زیریں میں جس جماعت یا اتحاد کو اکثریت حاصل ہو گی، آئندہ وزیراعظم بھی اسی کا ہوگا۔