بھارت کا جناح ٹاور متنازعہ کیوں؟
2 فروری 2022بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے شہر گونٹور کا معروف جناح ٹاور اب بھارتی پرچم کے رنگوں میں بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ پہلے یہ روایتی طور پر سفید رنگ کا ہوتا تھا جسے یکم فروری کو بھارتی پرچم کے طرز پر تین رنگوں، گیروا، سفید اور ہرے رنگ کا پینٹ کر دیا گيا ہے۔
جناح ٹاور گونٹور شہر کے مہاتما گاندھی روڈ کے اس مرکزی علاقے میں واقع ہے جہاں ایک بڑا بازار ہے۔ سخت گیر ہندو تنظیمیں کچھ دنوں سے اس کا نام بدلنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور گذشتہ ہفتے اس سلسلے میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ہندو واہنی کے بعض افراد کو حراست میں بھی لیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ہی مقامی اسمبلی کے ایک مسلم رکن محمد مصطفٰی نے اسے بھارتی پرچم کے رنگوں سے پینٹ کر دیا۔ یہ ٹاور شہر کے اس علاقے میں واقع ہے جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور ایک طویل عرصے سے یہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر موجود رہا ہے۔
نیا تنازعہ کیا ہے؟
بھارت میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام کا تذکرہ اکثر و بیشتر سیاسی مفاد کے لیے منفی انداز میں ہوتا رہتا ہے اور آج کل بی جے پی کے رہنما یو پی کے اسمبلی انتخابات کے ماحول میں تو تقریباً ہر روز ہی ان کا نام لیتے ہیں۔ لیکن اس فہرست میں جنوبی بھارت کا شہر گونٹور ایک نیا اضافہ ہے۔
تقسیم ہند سے قبل تعمیر ہونے والے اس ٹاور کو اب مسمار کرنے یا پھر اس کا نام بدلنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ بھارت میں عام طور پر تقسیم ہند کی تمام تر ذمہ داری بانی پاکستان محمد علی جناح پر ڈالی جاتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہندو گروہ اسے توڑنے یا پھر اس کا نام بدلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ شہر کے مرکز میں اُس شخص کے نام سے کوئی ٹاور نہیں ہونا چاہیے کہ جو تقسیم ہند کی وجہ بنا ہو۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسا مطالبہ ہوا اور ایک بار تو شہر کی انتظامیہ نے اس کا نام بدلنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا، تاہم بیشتر افراد نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہوا۔
بی جے پی کے قومی سکریٹری وائی ستیہ کمار نے گونٹور میں جناح ٹاور سینٹر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا،’’ٹاور کا نام جناح اور علاقے کا نام جناح سینٹر رکھا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پاکستان میں نہیں بلکہ آندھرا پردیش کے گنٹور شہر میں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایسے شخص کے نام پر مرکز، جن کو آج بھی بھارت کا غدار کہا جاتا ہے۔ اس کا نام بدل کر ڈاکٹر ابوالکلام یا ہماری مٹی کے بیٹے، عظیم دلت شاعر گرورام جاشوا کے نام پر کیوں نہ رکھا جائے؟‘‘
اس طرح کے دیگر بیانات کی روشنی میں اس پر ایک بحث چھڑ گئی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ریاست کی حکمراں جماعت وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ایک رہنما سی لیلا اپیرڈی نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما ایل کے اڈوانی نے سن 2005 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران جناح کو سب سے سیکولر آزادی پسند رہنما قرار دیتے ہوئے انہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کا سفیر قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شہر کی تاریخ میں کبھی بھی ٹاور کی مسماری کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور یہ گونٹور میں فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کی ایک سازش ہے۔
ایک مقامی صحافی راجندر نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ سخت گیر ہندو تنظیمیں کبھی کبھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے یہ معاملہ اچھالتی رہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اسی مقصد سے پھر کچھ دنوں سے، یہ معاملہ ابھارنے کی کوشش ہو رہی ہے تاہم بھارتی پرچم کے رنگ میں اسے پینٹ کرنے سے، اب قدر سکون ہے۔"
ٹاور کی تاریخ
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ تقسیم ہند کے بعد اب بھی بھارت میں ز ایک ایسا شہر موجود ہے جو بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے اور جس کا ایک ٹاور شہر کے مرکز میں موجود ہے۔ یہ ٹاور تقسیم ہند سے قبل سن 1942 سے 45 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔
اس دور کے ایک مقامی مسلم رہنما لال جان باشا نے علاقے میں ہندو مسلم فسادات کے بعد مذہبی ہم آہنگی کے لیے ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس جلسے میں مجاہد آزادی اور اپنے وقت کے معروف وکیل محمد علی جناح کو بطور مہمان خصوصی مقرر کے دعوت دی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے لال جان باشا نے اس جلسے کے مقام پر یادگار کے طور پر ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا۔
گرچہ بعض مصروفیات کی بنا پر محمد علی جناح اس جلسے میں شریک نہ ہو سکے تھے اور انہوں نے اپنی جگہ اپنے معتمد خاص لیاقت علی خان کو اس میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔ تاہم جناح ٹاور کی تعمیر کا افتتاح کر دیا گیا جو سن 1945 میں مکمل ہوا۔ یہ تاریخی ٹاور آج بھی قائم ہے تاہم اب سخت گیر ہندوؤں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔