بھارت کا خلا میں بھیجے گئے مصنوعی سیارے سے رابطہ منقطع
1 اپریل 2018
بھارتی خلائی تحقیقی ادارے نے چند روز قبل ہی جوش و خروش کے ساتھ اس مصنوعی سیارے کو خلا میں روانہ کیا تھا۔ اب بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ وہ خلائی سیارے سے رابطہ کھو بیٹھے ہیں۔
اشتہار
خلائی تحقیق کے بھارتی ادارے آئی ایس آر او کا کہنا ہے وہ حال ہی میں مدار میں چھوڑے گئے GSAT-6A سیٹلائٹ سے اس وقت رابطہ کھو بیٹھے، جب یہ مصنوعی سیارہ مدار میں اپنا تیسرا اور آخری چکر شروع کرنے والا تھا۔ خلائی ادارے کی جانب سے رابطہ منقطع ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ’’ہم رابطہ بحال کرنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ مصنوعی سیارہ مکمل طور پر بھارت ہی میں تیار کیا گیا تھا اور اسے خلا میں بھیجنے کا مقصد ملکی افواج کا باہمی رابطہ بہتر بنانا تھا۔ اس سیٹیلائٹ کو جمعرات کے روز بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں منعقدہ پر شکوہ تقریب کے دوران چھوڑا گیا تھا۔
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہونے والے ملک بھارت کے لیے اس کا اسپیس پروگرام ملکی ’برانڈنگ‘ میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ جمعرات کے روز بھارتی وزیر اعظم نے بھی اس سیٹیلائٹ کو خلا میں بھیجے جانے پر فخر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا تھا، ’’قوم کو نئی بلندیوں تک پہنچانے اور روشن مستقبل کی جانب لے جانے پر مجھے آئی ایس آر او پر فخر ہے۔‘‘
سن 2014 میں بھارت نے سائنسی تکنیک اور خلائی سائنس کے شعبے میں اس وقت ایک نئی تاریخ رقم کردی تھی جب وہ مریخ کے مدار میں اپنا سیٹلائٹ بھیجنے والا ایشیا کا پہلا اور دنیا کا چوتھا ملک بن گیا تھا۔ اس نئے سیٹیلائٹ کو بھارتی خلائی پروگرام میں ایک اور بڑا قدم قرار دیا جا رہا تھا۔
تاہم سیٹیلائٹ سے رابطہ کھو جانے کے بعد بھارتی خلائی پروگرام کے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ بھارتی خلائی پروگرام کو امریکا اور دیگر ممالک کے مہنگے پروگراموں کے مقابلے میں سستا اور قابل اعتماد بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ ناسا کے مریخ کے مدار میں بھیجے گئے سیٹیلائٹ پر 671 ملین ڈالر صرف ہوئے تھے جب کہ اس کے مقابلے میں بھارتی منصوبے پر محض 73 ملین ڈالر کا خرچہ آیا تھا۔
گزشتہ برس فروری میں اسرو نے ایک ہی پروگرام کے تحت 104 مصنوعی سیارے خلا میں چھوڑے تھے جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی گاہکوں کے لیے تھے۔ جب کہ اس کے بعد جون کے آغاز میں بھی بھارت نے اپنے خلائی پروگرام کے تحت ملک میں ہی بنائے گئے سب سے طاقتور راکٹ کو خلا میں بھیجا تھا۔ اس راکٹ کو بھی تکنیکی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
عمان کے ایک صحرائی علاقے میں آسٹریا کا مشن مریخ جیسے حالات پیدا کر کے تین ہفتے کا مشن شروع کر چکا ہے۔ یہ عمل سپیس ایکس راکٹ جیسا دلچسپ نہ سہی، مگر امید کی جا رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں متعدد اہم سوالات حل ہو سکیں گے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
نفسیاتی حدود کو چھونا
چھ رضاکار ’خلانوردُ اس تین ہفتے کے مشن میں شامل ہیں۔ جنوبی عمان کے ایک لق دق صحرا میں یہ افراد مریخ پر زندگی کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں گے۔ اس مشن کا ایک بنیادی مقصد تنہائی میں انسانی نفسیات پر پڑنے والے دباؤ کا جائزہ لینا ہے۔ دو سائنس دانوں کے ذمے جیوریڈار کے ذریعے دشت بھر کا نقشہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/dpa/S. Mcneil
نئے خلائی لباس کا تجزیہ
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے فلائٹ کنٹرولر ژواؤ لوزادا آؤدا نامی نئے خلائی لباس کی جانچ کر رہے ہیں۔ یہ لباس پچاس کلو وزنی ہے اور پہننے میں کئی گھنٹے لگتے ہیں۔ مگر جب یہ پہن لیا جائے، تو سانس، خوراک، کمیونیکشن اور کام میں بے حد مدد کرتا ہے۔ ہیلمٹ میں نصف یہ نیلا فوم ناک اور منہ صاف کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
’’دشت میں اگلوز‘‘
اس مشن میں شامل چھ افراد اگلے تین ماہ اس ڈھائی ٹن وزنی بڑے سے گھر میں گزاریں گے۔ اس اڈے کو مریخ کی چٹانی اور ریتلی سطح کو سامنے رکھ کر تعمیر کیا گیا ہے۔ عمان کے اس علاقے میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
دنیا بھر کے لیے تجربات
خصوصی گاڑیوں کا استعمال کر کے یہ سائنس دان دنیا بھر کے سائنس دانوں کے لیے 16 مختلف تجربات کریں گے۔ ان میں روبوٹ گاڑی کا استعمال، گرین ہاؤس حالات کا استعمال کر کے پودے اگانا اور تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے مختلف مشینوں کے لیے اضافی پرزے تیار کرنا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
مل جل کے کام
آسٹرین اسپیس فورم کی زیرنگرانی مریخ جیسے حالات پیدا کر کے انجام دیا جانے والا مشن دنیا کے 20 مختلف ممالک کی مدد سے چل رہا ہے۔ اس مشن کا مرکزی نکتہ ہے، ’’ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہم اپنے سیارے اور اپنے نظام شمسی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں ذمہ داری اور اخلاقی قدروں کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہے۔‘‘