1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا سفارتی توازن: روس کے ساتھ تعاون، مغرب سے بھی روابط

عاطف بلوچ | مرلی کرشنن، نئی دہلی | ادارت | شکور رحیم
6 دسمبر 2025

جغرافیائی سیاسی پس منظر اور موجودہ حالات کے تناظر میں روسی صدر پوٹن کا دورہ بھارت اس بات کا غماز ہے کہ نئی دہلی حکومت مغرب اور روس کے درمیان اپنے باہمی تعلقات کو کس طرح متوازن رکھنے کی کوشش میں ہے۔

روسی صدر، بھارتی وزیر اعظم، مودی، پوٹن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دورہ بھارت کے دوران متعدد شعبوں میں شراکت داری کے سولہ سمجھوتوں اورمعاہدوں کو حتمی شکل دی گئیتصویر: Grigory Sysoyev/Sputnik/REUTERS

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دورہ بھارت کے دوران متعدد شعبوں میں شراکت داری کے سولہ سمجھوتوں اورمعاہدوں کو حتمی شکل دی گئی۔ پوٹن نے جمعہ کو بھارت کے دو روزہ دورے کے اختتام پر کہا کہ ماسکو ’’تیزی سے بڑھتی ہوئی بھارتی معیشت کے لیے ایندھن کی بلاتعطل فراہمی جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

پوٹن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مزید کہا، ’’روس تیل، گیس، کوئلہ اور وہ سب کچھ فراہم کرنے والا قابل اعتماد سپلائر ہے، جو بھارت کی توانائی کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔‘‘

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ بھارت کی یہ قربت نئی دہلی حکومت کو مغرب سے دور کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں بھارت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

بھارت اور امریکہ نے تجارتی معاہدے کے پہلے حصے کے لیے خزاں تک ہدف مقرر کیا تھا، لیکن یہ معاہدہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا کیونکہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں ایک کشیدگی برقرار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ نئی دہلی کی روسی خام تیل کی بلا روک ٹوک درآمدات ہیں۔

اس کے ساتھ ہی بھارت یورپی یونین کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے پر بات چیت کے آخری مراحل میں بھی ہے۔ بھارت اور روس کا تجارتی اور عسکری تعاون اس ڈیل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے کیونکہ یورپی یونین روس کی یوکرین میں جارحیت کو ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔

بھارت میں روسی صدر کا شاندار استقبال کیا گیاتصویر: Indian Press Information Bureau/AFP

کیا بھارت توازن برقرار رکھ سکتا ہے؟

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار پروین ڈونتھی کے بقول بھارت کا جھکاؤ روس کی طرف سرد جنگ کے دور سے ہے اور یہ اس کے باضابطہ غیر جانبدارانہ مؤقف کے باوجود برقرار ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں پروین نے مزید کہا کہ بھارت مغرب اور دیگر ممالک بالخصوص روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو توازن دینے کی کوشش میں ہے، ''بھارت ایک ہی وقت میں روس اور امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر بننا چاہتا ہے، جو ایک سفارتی چیلنج ہو گا۔‘‘

دوسری طرف دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے روسی امور کے ماہر راجن کمار کا کہنا کہ امریکہ پوٹن کے دورے پر زیادہ سخت اعتراض نہیں کرے گا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کمار کا کہنا تھا کہ امریکہ خود بھی روس اور یوکرین تنازعے کے حل کے لیے خفیہ سفارتی چینلز کے ذریعے مذاکرات کر رہا ہے، ''امریکہ کی یہ متوازی سفارت کاری بھارت کے روس کے ساتھ مکالمہ برقرار رکھنے کے مؤقف کو عملی طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

تاہم کمار نے خبردار کیا کہ بھارت اپنی سفارتی گنجائش کھو سکتا ہے، ''اگر سفارتی کوششیں جنگ کے حل میں ناکام رہیں تو بھارت کو مغربی طاقتوں کی جانب سے بڑھتے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر اضافی پابندیوں یا دیگر اقدامات کی صورت میں اس کے ماسکو سے تعلقات محدود کرنے کے لیے کیے جائیں گے۔‘‘

بھارت اور روس کے درمیان تعلق مضبوط کیوں؟

03:24

This browser does not support the video element.

’بھارت کو مغرب اور روس دونوں سے تعاون گہرا کرنا چاہیے‘

خارجہ پالیسی کے ماہر سی راجا موہن کا کہنا ہے کہ بھارت کو دباؤ سے نمٹنے کے لیے توانائی اور دفاع کے شعبوں میں روس کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنے چاہییں لیکن ساتھ ہی امریکہ اور یورپ کے ساتھ بھی اقتصادی تعاون کو بھی گہرا کرنا چاہیے۔

سنگاپور کے انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں وزٹنگ پروفیسر موہن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''یوکرین پر جاری مذاکرات امریکہ، یورپ اور روس کے درمیان تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘

 سی راجا موہن کے مطابق بھارت کو اس جغرافیائی سیاسی تبدیلی کے دور میں تینوں طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک طور پر مضبوط کرنا ہو گا، ''یوکرین کے تنازعے نے مغرب کی روس کو اپنی سرحدوں کے قریب فوجی طور پر شکست دینے کی صلاحیت کی حدود کو بے نقاب کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مذاکراتی مؤقف میں تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘

دفاع اور تجارت میں توسیع کا امکان

بھارتی فارن سیکرٹری وکرم مسری نے بتایا ہے کہ روس اور بھارت روسی ساختہ ہتھیاروں اور دفاعی آلات کی دیکھ بھال کے لیے پرزہ جات اور اجزاء کی بھارت میں مشترکہ تیاری کو فروغ دینے پر متفق ہوئے ہیں۔

بھارت اور روس نے فروری میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ فوجی تعاون، مشقیں، بندرگاہوں کے دورے، آفات سے بچاؤ میں مدد اور لاجسٹک سپورٹ کو بہتر بنایا جا سکے۔

بھارت روسی ساختہ Su-30MKI  لڑاکا طیاروں کو اپ گریڈ کرنے اور اہم فوجی سازوسامان کی ترسیل کو تیز کرنے کی بھی توقع کر رہا ہے۔

بھارت ادویات، زراعت اور ٹیکسٹائل کی روس کو برآمدات بڑھانے کا خواہاں ہے اور ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئی دہلی ماسکو سے کھاد کی طویل المدتی فراہمی بھی چاہتا ہے۔

پوٹن نے آخری بار سن 2021 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ مودی گزشتہ سال ماسکو گئے تھے، اور دونوں رہنما ستمبر میں چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران مختصر طور پر ملے تھے۔

بھارت اور روس کے درمیان تعلق مضبوط کیوں؟

03:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں